کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 606
[دوسرا طریقہ :]
باقی رہا دوسرا طریقہ : تو وہ یہ ہے کہ: رؤیت الٰہی کا منکر؛ جو رؤیت کی نفی ؛ اس کے لازم جہت کی نفی کی وجہ سے کرتا ہے؛ اس منکر سے پوچھا جائے: تمہارے یہ کہنا کہ: ’’ وہ جہت میں نہیں ہے؛ توکیا ہر وہ چیز جو کسی جہت میں نہ ہو وہ نہیں دیکھی جاسکتی۔‘‘یہی حال تمام منکرین ِحق کا ہے؛ وہ اپنے تئیں لازم کی نفی کی وجہ سے حق کا بھی انکار کردیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اگر اللہ تعالیٰ کو دیکھا جائے گا تو اس سے یہ لازم آئے گا۔ جب لازم کی نفی کی جاتی ہے؛ تو ملزوم خود بخود منفی ٹھہرا۔‘‘
[جواب ]: ان باطل اور فاسد دلیلوں کا عام جواب یہ ہے کہ: دو مقدموں میں سے ایک کو ممنوع قرار دیا جائے چاہے وہ مقدمہ معین ہو یا غیر معین۔اس لیے کہ ان دو میں سے ایک کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ یا دونوں بھی باطل ہوسکتے ہیں ۔ اور بہت ساری عبارتیں جن میں الفاظ مجمل ہوں وہ ایک اعتبار سے صحیح اور ایک اعتبار سے فاسد ہو سکتی ہیں ۔ اور وہ ایسے ہی مجمل الفاظ کو دلیل بناتے ہیں ۔ منطقی اسے حدّاوسط کہتے ہیں ۔ پس یہ ایک مقدمہ میں ایک معنی کے لحاظ سے درست ہوتا ہے؛ اور دوسرے مقدمہ میں دوسرے معنی کے اعتبار سے درست ہوتا ہے۔ لیکن لفظ مجمل ہے۔ لفظ میں اجمال اور اشتباہ کی وجہ سے سمجھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس مقدمہ میں اس لفظ سے وہی معنی مراد لیا جارہا ہے جو دوسرے مقدمہ میں مراد ہے۔ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال مسئلہ رؤیت سے ہی لیجیے۔ اس میں کہا جائے گا آپ جھت کو امر وجودی سمجھتے ہیں یا امر عدمی؟ اگرمراد امر وجودی ہے؛ تو پھر ہروہ چیزجو کسی موجود نہیں ؛وہ نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ مقدمہ تو ممنوع اور باطل اس کے ثبوت کی کوئی دلیل نہیں ۔ کیونکہ عالم کی چھت دیکھنا ممکن ہے اور یہ عالم[جہاں ] کسی دوسرے عالم میں نہیں ۔
٭ اگر جھت عدمی امر ہے؛ تو دوسرا مقدمہ ممنوع ٹھہرا۔ چنانچہ ہم جھت میں نہ ہونے کی یہ تفسیر نہیں مانتے۔ اس دلیل کے ساتھ میں نے کئی شیعہ اور معتزلہ سے بات کی؛ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے نفع دیا۔ اس تفصیل سے وہ اشتباہ اور تعطیل ختم ہوگئی جو اس موقع پر پیدا ہوئی تھی۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان کی نفی رؤیت کی عقلیات قطعی ہیں ؛ اس کے خلاف نص رسول بھی قبول نہیں ۔مگر جب ان پر واضح ہوا کہ ان شبہات کی بنیاد مجمل الفاظ اور مشتبہ معانی ہیں ؛ تویہ واضح ہوگیا کہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ہے؛ وہی مقبول حق ہے۔ لیکن یہ تفصیل کا موقع نہیں ۔ جیسے اس منکر نے کہا اسے ویسا ہی جواب دیاگیا۔
(لفظ حِیِّزْ)
٭ اسی طرح لفظ حِیّزہے؛ اس سے کبھی مراد معنی موجود ہوتا ہے اور کبھی معدوم۔ جب کہیں :’’ ہر جسم حِیّز میں ہے‘‘ تو کبھی اس سے مراد امر عدمی ہوتا ہے اور کبھی امر وجودی۔ حیز لغت میں امروجودی ہے جس کی طرف