کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 605
’’ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے؛ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کر دو؛ اور بات بات پر مجھ پر زور ڈالتا ہے۔حضرت داؤد نے کہا:’’ بے شک یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے کہ تیری ایک دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کا کہ رہا ہے۔‘‘ اس نے ایسی ضرب مثال بیان کی تاکہ حقیقت حال واضح ہو سکے؛ یہ عقلی قیاس ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ﴾ (روم 27) ’’ہم نے قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَ مَا یَعْقِلُھَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ﴾ [عنکبوت 43] ’’ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور ان سے عقل تو علم والے ہی حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ یہ وہ میزان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ ﴾[الشوری۱۷] ’’اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب نازل کی اور میزان بھی۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴾[الحدید25] ’’ بلا شبہ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔‘‘ اس موضوع پر کئی دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بات ہوچکی ہے؛ اور یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ہر وہ قیاس عقلی شمولی خواہ یونانی اہل منطق کے طریقہ پر ہو یا کسی دوسرے کے طریقہ پر؛ اس میں کوئی شک نہیں ہوتا کہ وہ قیاس تمثیلی کی جنس سے ہوتا ہے۔اور بیشک مقصود یہ ہوتا ہے کہ دونوں قیاس ایک ہی چیز ہیں ۔اور دونوں اس میزان کے معنی میں داخل ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ اور ان میں سے جو کچھ یونانی اہل منطق کے ساتھ خاص ہے؛ اس میں کچھ باطل ہے اور بعض میں بلا وجہ کی طوالت ہے؛ جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ غالب طور پر اس کا نقصان اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل یونانی منطق پر تفصیلی بات ہوچکی ہے۔