کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 604
بالاولی حق پر ہے۔ جوبھی صحیح طریقہ ذکر کیا جائے؛ جس سے نبوت ثابت ہوتی ہے؛ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اس طریقہ سے ثبوت کی زیادہ حق دار ہے۔اور جب بھی صحیح طریقے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہو گی تو صاحبین رضی اللہ عنہما کی خلاف بالاولی ثابت ہو جائے گی۔اوران پر واضح ہو گا کہ جس ذریعے سے وہ اس حق کو چھوڑ رہے ہیں ممکن ہے اسی ذریعہ سے اس حق کو چھوڑنا بھی ممکن ہے جو ان کے ساتھ ہے۔پس مورد ِ نزاع میں جوچیز مجروح ہو گی؛وہ اجماع میں بھی مجروح ہو گی۔ جو چیز اجماع کے مواقع میں مثبت ثابت ہو گی نزاع کے مواقع میں بھی مثبت ہو گی۔اورجو اعتراض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور شیخین کی خلافت پر وار دہوں گے؛ کسی دوسرے کی نبوت؛ اوردیگرکی خلافت پر بھی وارد ہوں گے۔خواہ وہ اعتراضات ان جیسے ہی ہوں یا ان سے بڑے۔ اور جو دلیل کسی دوسرے کی نبوت اور شیخین کے علاوہ کسی کی خلافت پر دلالت کرے گی وہی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور صاحبین کی خلافت کی پراس سے بھی قوی دلیل ہو گی۔
٭ رہاوہ باطل جومتنازعین کے سامنے ہے؛ اس سے واضح ہو گیا کہ اس کا اس جیسے باطل سے معارضہ ممکن ہے جس طریق سے یہ باطل ہو سکتا ہے اس طریق سے ان کا باطل بھی باطل ثابت ہو سکتا ہے۔
٭ پس جوکوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت علی علیہ السلام وغیرہ کی الوھیت کا دعویٰ کرے اس کے سامنے حضرت موسی علیہ السلام ، حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی الوھیت کا دعوی کیا جائے؛ وہ جو بھی شبہ ان حضرات کی الوھیت کے لیے پیش کریگا دوسرے کے لیے بالاولیٰ بلکہ اس سے بڑھ کر ثابت ہو جائے گا۔ جب مثلین میں سے کسی ایک کا فساد واضح ہو جائے تو دوسرے کافساد خود بخود واضح ہو جائے گا۔ حق کی درستی اس کے لیے بیان کی گئی مثال سے ظاہر ہوتی ہے؛ اور باطل کا فساد اس کے لیے بیان کی گئی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان بسا اوقات اپنی محبوب یا ناپسندیدہ چیز کی مدح و ذم سے بے خبر ہوتا ہے جب اس کے لیے مثال بیان کی جاتی ہے تو اسے سمجھ آتی ہے کیونکہ: حبک الشیء یعمی ویصم۔
’’ تمہاری کسی چیز سے محبت اندھا اور بہرہ کردیتی ہے ۔‘‘
٭ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے مثالیں بیان کی ہیں ؛ کیونکہ اس سے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔اور انسان اپنے آپ کو اور اپنے اعمال کو نہیں دیکھ سکتا مگر جب اس کے لیے اس کے نفس کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اسے شیشہ نظر آتا ہے۔ اس کے اعمال غیر کے اعمال کے ساتھ تمثیل اختیار کر لیتے ہیں ] ۔اسی وجہ سے دوفرشتوں نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے مثال بیان کی؛ دونوں میں سے ایک نے کہا:
﴿اِِنَّ ہٰذَا اَخِی لَہٗ تِسْعٌ وَتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْہَا وَعَزَّنِی فِی الْخِطَابِ (23) قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِِلٰی نِعَاجِہِ ﴾ [ص: 23۔24]