کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 603
ایسا کرنا حرام اور مذموم ہے۔ایسا کرنے والا قابل مذمت ہے اس سے ناقابل بیان شر پیدا ہوتا ہے۔ جیسے مبتدعہ کے اقوال سے پیدا ہوا۔ (ان امور کی وضاحت اور کسی موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ) اللہ اعلم۔ [اہل سنت کے ہاں مناظرہ کا اصول :] ٭ یہاں بس اتنا بتانا مقصود ہے کہ عادلانہ مناظرہ کیا جائے جس میں انسان علم و عدل پر مبنی بات کرے نہ کہ جہالت اور ظلم پر مشتمل بات کی جائے۔ اکثر جماعتوں کے مناظرے بھلے وہ سنت سے کچھ ہی ہٹے ہوئے ہوں ؛ ان میں اکثر ایک دوسرے کے قول کو رد اور باطل ہی کیا جاتا ہے۔ ٭ ابوحامد غزالی رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کلام کا یہی فائدہ مدنظر ہوتا ہے؛ کوئی اور نہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں : وہ عقیدہ جس کے تعبدی ہونے کا لوگ اعتقاد رکھتے ہیں اس کا ایک باطن ہوتا ہے جو بعض امور میں ظاہر کے خلاف ہوتا ہے ان کا ذکر کردہ عقیدہ شریعت کا ایک لحاظ سے موافق اور ایک لحاظ سے مخالف ہوتا ہے۔ جو شارع سے ثابت ہو جائے اس کے ظاہر باطن میں کوئی اختلاف نہیں رہتا۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ مناظرہ میں کسی قول کو راجح بیان کرنا مدنظر ہونا چاہیے۔ ٭ اسی وجہ سے اھل کلام کے بہت سے مناظرین بھی فریق مخالف کے مذھب کا فساد اور تناقض بیان کرنے کو ہی مناظرہ سمجھتے ہیں ۔اس لیے کہ بلا ریب یہ دونوں ا قوال ہی باطل ہوتے ہیں ۔ پس جب بھی کوئی ایک اپنے قول کی نصرت کرتا ہے تو اس سے مخالف کے قول کا فساد اور خرابی واضح ہو جاتے ہیں ۔ یہ صورت اس لیے پیدا ہوئی کہ صاحب مذھب اپنے مذھب کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو؛اور اس نے اس کی بنیاد اپنی سمجھ کے مطابق صحیح مقدمات پر رکھی ہو۔جب کوئی دوسرا فریق ان مقدمات کا تناقض ثابت کرتا ہے؛ تووہ نہ اسے قبول کرتا ہے اور نہ حق واضح کرتا ہے؛ اور جھگڑے کو طول دیتا ہے جیسے اھل کلام کرتے ہیں ۔ ٭ وجہ یہ ہے کہ اس وضاحت کے ساتھ غیر کے مذھب کو اس کے مذھب پر ترجیح ملتی ہے یا ان مقدمات کے ذریعے اس کے مذھب کا فاسد ہونا لازم آتا ہے۔ جب یہ اپنے قول کا تناقض یا دوسرے کے قول کو اپنے قول سے راجح دیکھے تو اسے حق کی معرفت حاصل ہو اوراس پر اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اسی طرح، دھریہ، یہودی، عیسائی اور رافضی وغیرہ سے مناظرہ کرنا چاہیے۔جب ان کے ساتھ اس طریقہ کار کو اپنائیں تو موردِ اختلاف میں ان کے لیے مفید ہو گا؛ان پر حق واضح ہو جائے گا۔ ہر جماعت کے ساتھ حق و باطل ہوتا ہے۔ جب کسی جماعت کو مخاطب کیا جائے تو اس پر حق واضح ہو جاتا ہے؛ اور اسے باور کرایا جاتا ہیکہ حق وہ ہے جس طرف ہم بلا رہے ہیں تو وہ موافقات کو بالاولیٰ قبول کرے گا۔جیسے نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبوت عیسی و موسی علیہماالسلام سے زیادہ قبولیت کی حق دارہے۔ اورخلافت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم خلافت علی رضی اللہ عنہ سے