کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 602
٭ یہ اور اس جیسے دیگر طریقے عقلی مناظرہ کے ہیں ؛ جب اس پر چلیں گے تو واضح ہوگاکہ جو بھی سنت پر چلے گا اس کا قول عقل کے زیادہ قریب ہو گا۔ یہ طریقہ بھی سنت قریب ہونے والوں کی ضرور مدد کرتا ہے لیکن جب کچھ سنت کے قریب لوگوں نے بھی سنت سے دور ہونے والوں کے مقدمات کو درست مان لیا تو یہ بھی حقیقت میں باطل اور عقل و شرع کے مخالف ٹھہرا۔ ممکن نہیں کہ ان کا قول معاملہ کے مطابق ہو اور عقل صریح اور شرع متین کے ساتھ اس کی مدد کرنا ممکن نہیں ۔ یہ بات اسے سمجھ آنے کی جو حق کو جاننے کی کوشش کرے نہ کہ کسی قول کی طرف جھکاؤ رکھتا ہو۔ اگر کسی قول کا رجحان واضح کرنا مقصود ہو تو اگرچہ یہ ممکن ہے یہ وہ طریقہ ہے جس پر بہت سارے لوگ چلتے ہیں اسی وجہ سے رافضہ عیب ہے جنہوں نے اہل سنت کے خلفاء ثلاثہ کے اثبات کے معاملہ میں کیا انہوں نے بہت سے مذموم اقوال کے ساتھ عیب لگایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں تو حق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ علم کے ساتھ بات کرنے کا امر دیا ہے، عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایا ہے ہمارے لیے جائز نہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی (چہ جائے رافضی) کوئی حق کی بات کہے اور ہم اسے ترک کر دیں ہم فقط باطل کو رد کریں گے حق کو نہیں ۔ اسی وجہ سے یہ کتاب لکھی ’’منھاج أہل السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ۔‘‘
٭ بہت سے اھل سنت کہلانے والوں نے معتزلہ، رافضہ اور دیگر اھل بدعت کلامیوں کی تراشیدہ بدعات اور باطل چیزوں سے رد کیا ہے۔ اس طریقہ کو بہت سے اھل کلام جائز سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں فاسد کا مقابلہ فاسد سے کرنا درست ہے۔ لیکن ائمہ سنت اور سلف اس کے خلاف ہیں ۔ یہ ایسے اھل کلام کی مذمت کرتے ہیں جو بدعت اور باطل کا رد بدعت اور باطل سے کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ: انسان کو حق ہی بیان کرنا چاہیے کسی صورت میں بھی سنت سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ یہی درست بات ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم معتزلہ اور رافضہ کی تراشیدہ چیزوں کے باوجود حق کو نہیں چھوڑتے۔ لیکن ہم اپنے مخالفین پریہ واضح کرتے ہیں کہ انہوں نے جن اقوال کے ساتھ عیب لگایا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کے اقوال میں عیب ہے۔
٭ شیخین رضی اللہ عنہماکی فضیلت اور خلفاء اربعہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے قائلین اگرچہ کچھ فاسد اقوال بھی رکھتے ہیں لیکن رافضہ کے اقوال کا فساد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح فلاسفہ اور معتزلہ میں سے خود کو سنت کی طرف منسوب کرنے والوں کا معاملہ بھی ہے؛ جیسے اشعری اور دیگر حضرات؛ اگرچہ ان کے ہاں بھی باطل اور فاسد اقوال پائے جاتے ہیں ؛تو یقیناً معتزلہ اور فلاسفہ کے اقوال و عقائد اس سے بھی بڑے باطل اور فاسد ہیں ۔پس لازم آتا ہے کہ جب دو گروہوں میں بحث ہو؛ تو راجح وہی بات ہونی چاہیے جو عقل و نقل اور شرع کے زیادہ قریب ہو۔ ہم کبھی بھی عقل و شرع کے مخالف باطل قول کی نصرت نہیں کریں گے کیونکہ