کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 599
[عقل اور وہم سے متعلق گفتگو:]
٭ جب آپ سے یہ کہا جائے کہ : ’’اس بات کا تو علم ضروری سے عقل کے خلاف ہونا معلوم ہے۔‘‘ کیونکہ عقل جب دوایسی چیزوں کے وجود کو ثابت نہیں کرتی مگر اس صورت میں کہ ان میں سے ایک یا دوسرے سے جدا ہو گی؛ یا اس میں شامل[داخل] ہو گی۔ جیسا کہ عقل جدا چیزوں اور اعراض قائمہ کو ثابت کرتی ہے۔رہا قائم بالذات موجود کا اثبات جس کی طرف اشارہ نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی وہ عالم کے داخل میں ہوتا ہے اور نہ ہی خارج میں ؛ تو عقل اس کے باطل اور ناممکن ہونے کو لازم ٹھہراتی ہے۔
٭ آپ نے کہا:’’ یہ وھم کے حکم نفی ہے نہ کہ عقل کے حکم کی۔‘‘تو آپ نے فطرت میں دو حاکم بنا دئیے۔ ایک وھم اور دوسری عقل۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جسے وھم سے موسوم کرتے ہیں ؛اور اسے وہ قوت بھی قرار دیتے ہیں جو غیر محسوس جزئی کے معانی کو اعیان محسوسہ میں پا لیتی ہے مثلاً دشمنی اور دوستی۔ جیسے بھیڑ ایک معنی کا اعتبار سے بھیڑئیے میں ،اور ایک معنی کے اعتبار سے مینڈھے میں پائی جاتی ہے۔ وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہوتی ہے اور دوسرے سے بھاگتی ہے۔
٭ اگر وھم سے مراد امور معینہ ہیں ؛تو یہ قضایا جن کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں یہ عمومی کلیہ ہے۔عمومی قضایا کلیہ عقل کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ حس کے لیے اور نہ ہی اس وھم کے لیے جو حسّ کے تابع ہو۔ حس تو صرف امور معینہ میں پائی جاتی ہے۔آپ کے ہاں وھم بھی اسی طرح ہے۔ کئی مقامات پر اس پر تفصیلی بات ہو چکی ہے۔ لیکن یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اِن کا قول اُن کے قول سے زیادہ قریب ہے۔
٭ پس کہا جائے گاکہ: ’’ جب ہم عقل پر موجود کا وجود پیش کرتے ہیں جو نہ عالم کے داخل اور خارج میں ؛ نہ مباین اورنہ ملا ہوا۔ عالم میں موجود مبائین کا وجود اس کے اوپر ہے وہ جسم نہیں ۔ عقل پہلے کی نسبت دوسرے کو زیادہ قبول کرتی ہے۔ یہ ہر ایک کی فطرت میں موجودہے۔ دوسرے کا قبول فطرت کے زیادہ قریب ہے؛ اور پہلے سے نفور اس کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ اوراگرفطرت سے بعید تر قول میں آپ کی بات کی تصدیق واجب ہوتی ہے؛ تو اس کی نسبت ان لوگوں کے قول میں ان کی تصدیق زیادہ اولی ہے۔ پس درایں صورت آپ اپنے قول کے حق میں اور ان کے قول کے بطلان پر جو بھی دلیل پیش کرو گے؛وہ تمہارے قول کے بطلان پر اس سے زیادہ بڑھ کر دلالت کرتی ہوگی۔
٭ پس جب آپ کہو گے کہ: ’’عالم کے اوپر ایسے موجود کا وجود تصور نہیں کیا جاسکتا جو جسم نہ ہو۔‘‘
٭ تو تم سے کہا جائے گا کہ: ’’ بالکل ویسے ہی جیسے اس موجود کا وجود تصور نہیں کیا جاسکتا جو نہ عالم کے داخل میں ہو اور نہ ہی خارج میں ۔‘‘