کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 598
کئی سلف نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے:’’انسان فرشتے کو اصلی صورت میں دیکھنے کی قوت ہی نہیں رکھتے۔ اگرہم ان کی طرف فرشتہ نازل کرتے ؛ تو اسے بھی بشر کی شکل وصورت میں نازل کرتے۔ اور اس صورت میں پھر یہ شبہ ہی رہتا کہ یہ فرشتہ ہے یا انسان۔ یہ فرشتے کے مبعوث ہونے کے باوجود فائدہ نہ اٹھاتے۔ ہم نے ان میں انہی کی جنس میں سے رسول بھیج دیا جسے ان کے لیے دیکھنا اور اس سے سیکھنا آسان ہو جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مخلوق پر بڑا فضل اور رحمت ہے۔ اسی لیے ارشاد فرمایا :
﴿وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ﴾(تکویر 22)
’’اور تمہارا ساتھی کوئی مجنوں نہیں ہے۔‘‘
نیزارشاد فرمایا:﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾ (نجم 2)
’’تمہارا ساتھی نہ گمرا ہوا نہ بھٹکا ہے۔‘‘
نیزارشاد فرمایا:﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ﴾۔(توبہ 123)
’’یقیناً تمہارے پاس رسول آیا جو تم ہی میں سے ہے۔‘‘
نیزارشاد فرمایا:﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ﴾(ابرہیم 4)
’’ ہم نے ہر نبی اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے لیے وضاحت کرے۔‘‘
اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں ۔
اگر آپ کہیں :’’ وہ کہتے ہیں کہ: ’’وہ بلاجھت دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ تو ضد اور عناد ہے۔
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: انہوں نے یہ بات ایک ایسی اصل کی بناء پر کہی ہے جو آپ اور ان کے درمیان متفقہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی جھت میں نہیں ۔ پھر جب کلام، اشعری اس کے اصحاب ائمہ اور ان کے ہم خیال (اھل الحدیث) اصحاب احمد، تمیمیین اور ابن عقیل وغیرہ کا بھی ہے؛ تو کہا جائے گاکہ : یہ کہتے ہیں :’’ وہ عالم کے اوپر بالذات ہے وہ نہ تو جسم ہے اور نہ ہی متحیز۔‘‘
اگر آپ کہیں :’’ یہ قول عقل کے خلاف ہے۔‘‘کیونکہ جب وہ عالم کے اوپر ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کی ایک جانب دوسری سے ممتاز ہو (جب ایک جانب دوسری سے ممتاز ہوئی) تو جسم ہوا۔ جب وہ عرش پر قائم بالذات موجود کو ثابت کرتے ہیں ؛تو وہ چھونے اور برابری سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اس کی جانب دوسری سے ممتاز ہوتی ہے یہ تو عناد اور محض ِمخالفت ہی ہے۔‘‘
رؤیت کی نفی کرنے والوں سے پوچھا جائے تم اور تمہارے ہمنوا قائلین رؤیت اس بات پر متفق ہو کہ وہ نہ عالم میں داخل ہے نہ عالم سے خارج؛ اور نہ ہی عالم سے جدا ہے اورنہ ہی عالم میں جگہ پکڑے ہوئے ہے۔‘‘