کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 597
ہوا کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ اندھیرے کی نسبت روشنی رؤیت کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ کیونکہ نور وجود کا زیادہ حق رکھتا ہے اور اندھیرا عدم کا زیادہ حق رکھتا ہے۔پس موجود واجب الوجود، موجودات میں سے وجود کا زیادہ حق رکھتا ہے؛ اور اشیاء میں سے عدم سے سب سے زیادہ دور ہے۔اور یہ زیادہ حقدار ہے کہ دیکھا جائے۔مگر ہم اپنی آنکھوں کی کمزوری کی وجہ سے اسے دیکھنے سے عاجز ہیں ناکہ رؤیت کرنا ممکن ہونے کی وجہ سے ۔ جیسا کہ سورج کی روشنی دیکھے جانے کا سب سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ذات باری تعالیٰ کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح سورج اور چاند کو دیکھتے ہو۔‘‘
آپ نے رؤیت کو رؤیت سے تشبیہ دی ہے اگرچہ دونوں دیکھنے میں برابر نہیں ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھ اپنی کمزوری کی وجہ سے سورج کی روشنی کو دیکھنے سے عاجز ہے نہ کہ اس روشنی کا دیکھنا ناممکن ہونے کی وجہ سے ۔پس جب آخرت میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو کامل کرے گا اور انہیں وہ قوت دے گا حتی کہ اس ذات کی رؤیت کی طاقت مل جائے گی۔ اسی وجہ سے جب اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش آئی تو فرمایا:
﴿فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (اعراف 143)
’’ پھر جب اسے ہوش آیا تو اس نے کہا تو پاک ہے، میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں ۔‘‘
’’ اول المؤمنین ‘‘ اس لیے کہا کہ زندہ اسے نہیں دیکھ سکتا حتی کہ وفات پاجائے۔ اور تری جب تک خشک نہ ہو جائے؛ مخلوق میں یہ کمزوری موجود ہے۔ نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا دیکھنا محال ہے بلکہ مانع خود انسان ہے۔ اس ممانعتکی وجہ اس کے وجود میں نقص ہے۔ حتی کہ معاملہ معدوم تک پہنچے جس کو دیکھنے والے کے باہر دیکھنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اسی وجہ سے انسان فرشتے کو دیکھنے سے عاجز ہیں ہاں جس کو اللہ تعالیٰ قوت دے دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت دی ۔فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ O وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ﴾ [الانعام۸۔۹]
’’اور انھوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو ضرور کام تمام کر دیا جاتا، پھر انھیں مہلت نہ دی جاتی۔اور اگر ہم اسے فرشتہ بناتے تو یقیناً اسے آدمی بناتے اور ان پر وہی شبہ ڈالتے جو وہ شبہ ڈال رہے ہیں ۔‘‘