کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 596
٭ جب تم کہتے ہو: ’’جب وہ رؤیت کو بلاجھت ثابت کرتے ہیں ؛ تو یہ عقل کے خلاف ہے۔‘‘
٭ تو تم سے کہا جائے گاکہ: ’’ تمہارا قول دوحال سے خالی نہیں ۔ اس بات میں تم عقل کو حاکم بناؤ گے یا نہیں ؟ ۔ اگر حاکم نہ بناؤ تو تمہارا قول باطل۔ اگر تم عقل کو حاکم مانو؛ تو جس نے موجود اور قائم بالنفس کی رؤیت کا قول اختیار کیا یہ عقل کے زیادہ قریب ہے؛ برخلاف اس کے جو قائم بالذات اور موجود کی رؤیت کی نفی کرے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رؤیت کے ثبوت میں امور عدمیہ کی شرط لگانا درست نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں امور وجودیہ کی شرط ہونی چاہیے۔
ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ ہر موجود دیکھاجاسکتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کا دعوی ہے؛ اس دعوی کی برائی انہی پر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن کلاب اور ائمہ اربعہ وغیرہ میں سے اس کے متبعین کہتے ہیں :’’ ہر قائم بالذات کو دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘ میرے خیال میں کرامیہ وغیرہ نے بھی یوں ہی کہا ہے۔ اصحاب امام احمد رحمہ اللہ سے ابن زاغونی رحمہ اللہ نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔
جبکہ اشعری کا کہنا ہے کہ: ہر موجود کا دیکھا جانا جائز ہے۔اس عقیدہ پر ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے اصحاب کی ایک جماعت نے اسی کی موافقت کی ہے؛ جیسا کہ قاضی ابویعلی وغیرہ۔ پھر اس نے اس قیاس کورد کیا ہے کہ: ہر موجود کا تعلق ادراکات خمسہ سمع و بصر، سونگھنے، چکھنے، اورمحسوس کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کے اصحاب کی ایک جماعت نے اس کی موافقت کی ہے جیسے قاضی ابوبکر، ابوالمعالی؛ رازی اور قاضی ابویعلی وغیرہ۔ ان کے علاوہ دیگر حضرات نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:’’ ہم اس مسئلہ میں سونگھنے ، چکھنے اور محسوس کرنے کو ثابت نہیں کرتے؛اور باری تعالیٰ کے ساتھ ان کے تعلق کی بھی نفی کی ہے۔پہلے گروہ کے علماء نے حواس خمسہ کے تعلق کو باری تعالیٰ سے جائز قرار دیا ہے؛ جبکہ دوسرے گروہ کے علماء[ اھل الحدیث] اور دیگر حضرات نے صرف ان امور کو ثابت مانا ہے جن کے بارے میں دلائل وارد ہوئے ہیں ؛ جیسے : لمس، اس میں سونگھنا اور ذائقہ سے معلوم کرنا شامل نہیں ۔اسی طرح معتزلہ میں سے بعض حضرات جیسے بصریین نے ادراک کی جنس کو ثابت کیا ہے۔اور ان میں سے بعض نے انکار کیا ہے ؛ جیسے بغدادییں ۔ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ دیدار کے قائلین حضرات کے کلام میں اگرچہ کچھ خطاواقع ہوئی ہے مگر عقل و نقل کے لحاظ سے منکرین کے کلام سے زیادہ درست اور فہم کے زیادہ قریب ہے۔
ہم کہتے ہیں کچھ اشیاء نظر آتی ہیں کچھ نظر نہیں آتی ۔ان کے مابین فرق امور عدمیہ کو ٹھہرانا ناجائز ہے کیونکہ رؤیت امر وجودی ہے ؛[دیکھی جانے والی چیز کا وجود ہونا چاہیے نہ کہ عدم] جو معدوم سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس میں شرط فقط امروجودی ہے نہ کہ عدمی۔ ہر وہ چیز جس وجود کی شرط ہو؛ عدم سے ہٹ کر اس کے جود اکمل کے ساتھ ہونا انقص کے ساتھ ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ ہر وہ چیز جس کا وجود اکمل ہے وہ نظر آنے کا زیادہ حق رکھتی ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو دیکھی نہیں جا سکتی بہت ہی کمزور وجود رکھتی ہے؛ اگر اس کا دیکھا جانا ممکن ہو تو اجسام غلیظہ (موٹے )