کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 595
صفات ہیں جیسے علم و قدرت، استواء علی العرش خبری صفات میں سے ہے یہ قول اکثر اصحاب ائمہ اربعہ اور اکثر اھل الحدیث کا ہے۔ قاضی ابویعلی کا دوسرا قول بھی یہی ہے۔ ابوالحسن بن زاغونی اور بہت سے کرامیہ اہل کلام اور دیگر حضرات بھی اسی کے قائل ہیں ۔ اشعری سے مشہوریہ ہے کہ یہ دونوں خبری صفات ہیں ۔ اکثر ائمہ اربعہ کے متبعین، قاضی ابویعلی کا پہلا قول اور تمیمیین وغیرہ کے اصحاب رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ بہت سے متأخر اشاعرہ نے اللہ تعالیٰ کے عرش پر یا آسمانوں میں ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ حضرات صفات خبر کا انکار کرتے ہیں جسے ابوالمعالی ان کے متبعین۔ اشعری اور ان کے ائمہ صفات خبریہ کا اثبات کرتے ہیں ۔[1] انہوں نے دیگر صفات کی طرح اس کی بھی نفی کی ہے کیونکہ اشعری کے بقول یہ صفات خبریہ ہیں ۔ جبکہ ان کے ہاں یہ صفت عقلی ہے۔ یہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کو دیکھا جائے گا مگر وہ جھت میں نہیں ۔ قائلین رؤیت میں سے جمہور اور منکرین رؤیت کہتے ہیں : ان لوگوں کے قول کا فاسد ہونا عقلی لحاظ سے معلوم شدہہے؛ جیسا کہ مسئلہ کلام میں ان کا قول فاسد ہے۔ اسی وجہ سے ابوعبداللہ رازی نے ذکر کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی رؤیت اور کلام میں ان کے قول اختیار نہیں کیا۔ [ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور مسئلہ رؤیت کا بیان :] ٭ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مسئلہ رؤیت کو دو طرح سے بیان کرتے ہیں : طریقہ اول: ہم اس میں واضح کریں گے کہ قائلین رؤیت میں سے جنہوں نے ان پر رد کیا ہے مثلاً اشعری وغیرہ نے تو یہ رد ان کے قول نفی کرنے والوں سے زیادہ درست اور صحیح ہے۔ طریقہ دوم: اس میں ہم کسی ایک کا دفاع کیے بغیر حق کو مطلق طور پر واضح کریں گے۔ پہلے طریقے میں یہ واضح کیا جائے گا کہ اثبات رؤیت کے قائلین اس گروہ میں منکرین دیدار کی نسبت غلطی کم اور درستی زیادہ ہے ۔ ہم منکرین رؤیت سے کہتے ہیں : ’’ تمہاری خرابی اس مسئلہ میں اشعرین اور ان کے متبعین سے زیادہ ہے۔ ان کے حق ہونے کو ہم عقلاً نقلاً ثابت کریں گے؛ اگرچہ ان کے قول میں بھی خطا ہے لیکن تمہارے قول میں غلطی زیادہ بڑی اور عقلاً ونقلاً بدترین ہے۔
[1] اصبع، عین وجہ، قدم، جنب وغیرہ کو مانتے ہیں جو احادیث میں آئے ہیں ۔ میں نے ان کی کتاب’ اِبانہ‘میں دیکھا ہے معلوم ہوتا ہے یہ امام احمد کے متبعین میں سے ہے۔ اس کے عقائد انہی جیسے تھے، متاخرین نے اس کے مسلک کو بدل دیا حتی کہ لوگ اسے ان کا مسلک سمجھ بیٹھے۔  ابوحاتم بستی محمد بن حباز المحدث، متوفی 354، اسے اصحاب اشعری کے ضمن میں نہیں بیان کیا گیا اسی طرح ابوسلیمان دمشقی کا بھی۔ ہم نے یہ اختلاف نقل کیا ہے کہ قلانسی مقدم ہے یا اشعری کا ہم عصر ہے اس طرح خاص کر مجاسی یہ ابن کلاب کا معاصر تھا اس کی صحبت کی وجہ سے احمد بن حنبل کو چھوڑا یہ سب اصحاب اشعری ہیں بسا اوقات ان سے مراد اصحاب ابن کلاب ہوتے ہیں ۔ لیکن یاد رہے ابن حبان اس کی وفات کے تقریباً تین سال بعد پیدا ہوئے۔