کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 593
سے ہر کوئی اسے لغوی معنی میں استعمال نہیں کرتا۔اسی وجہ سے نفی کرنے والے اس سے حق و باطل کی نفی کرتے ہیں اور مثبتین کے متعلق وہ کہتے ہیں جو انہوں نے نہیں کہا۔ بعض مثبتین اس میں باطل معنی کو بھی داخل کرتے ہیں جو اقوال سلف اور کتاب و سنت کے خلاف ہیں ] جھت سے کبھی موجود مراد ہوتا ہے اور کبھی معدوم۔یہ معلوم شدہ بات ہے کہ خالق و مخلوق موجود ہیں ۔ جب جھت سے مراد اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی چیز ہو گی تو وہ مخلوق ہے۔ کوئی بھی مخلوق اللہ تعالیٰ کی کسی چیز کا احاطہ اور گھراؤ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مخلوقات سے جدا ہے۔ اگر جھت سے امر معدومی مراد ہو؛ جو عالم کے اوپر ہے تو وہاں فقط اللہ تعالیٰ وحد لا شریک ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر جھت سے مراد کلام میں وہ جگہ ہو جو مخلوقات کے اوپر ہے اور جہاں مخلوقات کی انتہاء ہو جاتی ہے، وہ سب سے اوپر ہے۔جھت کے منکرین اپنے دلائل کے ضمن میں کہتے ہیں : ساری جہات مخلوق ہیں ؛وہ جہات سے بھی پہلے تھا۔ جو یہ کہتا ہے کہ وہ کسی جھت میں تھا؛تواس سے قدم ِعالم لازم آتا ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ وہ پہلے جھت سے بے نیاز تھا؛پھربعد میں وہ جھت میں ہو گیا۔ یہ سب احوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ مخلوقات میں سے کسی چیز میں نہیں ؛بھلے اسے جھت کہیں ؛ یا کوئی اور نام دیدیں ۔یہی بات حق ہے۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات اس چیز سے منزہ اورپاک ہے کہ مخلوقات میں سے کوئی اس کا احاطہ کرسکے۔ یا پھر وہ ان میں سے کسی چیز کا محتاج ہو۔ خواہ وہ عرش ہو یا کوئی دوسری چیز ۔ اورکچھ جاہل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔[1] تو عرش ان کے اوپر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ عالم کے دو طبقات میں محصور ہوتے ہیں ۔ یہ قول اجماع سلف اور دلائل کتاب و سنت کے مخالف ہے (جیسا کہ تفصیل گزر چکی)۔ بعض اھل الحدیث نے اس کی نفی میں توقف اختیار کیا ہے؛ جس کا سبب اقوال سلف اور کتاب و سنت کے معانی کے علم میں کمزوری ہے۔اور جن حضرات نے جھت کی نفی کی ہے؛ اس سے ان کی مراد مخلوقات کا احاطہ کرنا یا اس کے محتاج جھت ہونے کی نفی کرنا ہے؛ تو یہ ہی حق ہے۔ لیکن ان میں سے عام طورپریہ لوگ یہیں پر بس نہیں کرتے؛ بلکہ رب العالمین کے عرش پر ہونے کی نفی کرتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم بالا کی معراج نہیں ؛ اور نہ ہی کوئی چیز اوپر چڑھتی اورنہ ہی وہاں سے نیچے اترتی ہے ۔یا یہ کہ وہ ذات عالم جدا ہو؛ بلکہ بسا اوقات کہتے ہیں : وہ ذات نہ ہی عالم سے جدا ہے؛ نہ ہی اس میں داخل ہے۔وہ اسے ناممکن اور معدوم مانتے ہیں ۔ اور بسااوقات ہر موجودچیز میں حلول کیا ہوا مانتے ہیں یا اس کا وجود ہر شے میں مانتے ہیں یہ معطلہ اور حلولیہ کے عقائد ہیں ۔
[1] یہ حدیث کئی صحابہ سے متعدد وجوہ سے منقول ہے (بخاری 52۔53؍2، کتاب التھجد، باب الدعاء والصلاۃ من اخراللیل، مسلم 521۔23؍1 کتاب صلاۃ المسافرین و قعرھا، باب الترغیب فی الدعاء والذکر اخراللیل واجابۃ فیہ، ابوداؤد 47؍2، کتاب الصلاۃ باب ابی اللیل افضل، 314؍4، کتاب السنۃ باب الروعلی الجھمیہ۔ مسند احمد 967۔68 مطبوعہ معارف، اور کئی جگہ بھی ہے۔ ترمذی، نسائی، ابن ماجہ دارمی، مسند طنالیسی، منتاح کنوز السنہ مادہ: دعا ابن خزیمہ نے احادیث نزول پر خاص باب قائم کیا ہے کتاب التوحید 90۔83۔