کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 590
دنیوی آنکھ سے رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے اور بعض نے نفی کی ہے۔ فریقین کے اقوال و دلائل کو دوسری جگہ میں نے مفصل بیان کر دیا ہے۔ یہاں مقصود سلف کا اس بات پر اتفاق نقل کرنا ہے کہ اس دنیا میں دنیوی آنکھ سے رؤیت باری تعالیٰ نا ممکن ہے؛ البتہ آخرت میں یہ دیدار ہونا ثابت ہے۔ ہاں اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اختلاف ہے۔منکرین کی یہ دلیل کہ : ﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ﴾ [انعام 103] ’’اسے آنکھیں نہیں پا سکتی ۔‘‘[تو عرض ہے کہ] یہ آیت ان کے خلاف حجت ہے ؛ان کے حق میں دلیل نہیں بن سکتی۔کیونکہ ادراک سے یا تو مطلق رؤیت مراد ہے ؛ یا رؤیت مقید۔ پہلا قول باطل ہے کیونکہ ہر دیکھنے والے کے بارے میں یہنہیں کہا جاسکتا کہ اس نے ادراک کر لیا ہے؛ جیسا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے احاطہ کر لیا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس بارے پوچھا گیا تو فرمایا :’’کیا تو نے آسمان نہیں دیکھا؟ ۔سائل نے کہا:’’ جی دیکھا ہے۔‘‘ فرمایا کیا سارے کا سارا دیکھ لیا؟ عرض کیا : نہیں ۔
[ایسے ہی ]جس نے لشکر، پہاڑ، باغ یا شہر کا ایک کنارہ یا جانب دیکھ لی؛ اسی کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتاکہ اس نے ادراک کر لیا۔ ادراک کا لفظ تب بولا جاتا ہے کہ جب دیکھ کر احاطہ کر لیا ہو۔ ہم یہاں پر اس کی تفصیل میں نہیں جارہے۔ہم نے صرف منع کی سند کی وضاحت کے لیے یہ سب بیان کیا ہے۔ بلکہ اس آیت سے استدلال کرنے والے کو لغت عرب کی رو سے بیان کرنا چاہیے کہ ادراک رؤیت کے مترادف ہے۔اوریہ کہ لغت میں دیکھنے والے کے لیے ادراک کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کی کوئی راہ نہیں نکلتی۔ جبکہ لفظ رؤیت اور ادراک میں عموم و خصوص یا اشتراک لفظی پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات رؤیت بلا ادراک بھی ہوتی ہے اور بسااوقات ادراک بلا رؤیت واقع ہوتی ہے۔ ادراک کا لفظ علم اور ادراک ِقدرت کے لیے استعمال ہوتا ہے بسااوقات قدرت کے لحاظ سے کوئی چیز پائی جاتی ہے اگرچہ دیکھی نہ بھی گئی ہو مثلاً اندھا ایسے آدمی کو پالے جو اس سے بھاگ گیا تھا فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَمَّا تَرَائَی الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ (61) قَالَ کَلَّا اِِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَہْدِیْنِی ﴾[شعراء 61۔62]
’’پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا بے شک ہم یقیناً پکڑے گئے۔کہا ہرگز نہیں ! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔‘‘
دیکھنے کے باوجود موسی علیہ السلام نے ادراک کی نفی کی۔ معلوم ہوا بسااوقات رؤیت بلاادراک ہوتی ہے۔ یہاں ادراک سے مراد ادراک قدرت ہے یعنی ہمارا گھیراؤ اور محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔پس جب اس ادراک کی نفی ہو تو آنکھ کے احاطہ کرنے کی نفی ہوئی۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف بیان کی ہے۔اوریہ تو معلوم شدہ ہے کسی چیز کا وجود رکھنے کے باوجود اس کا نظرنہ آنا یہ صفت مدح نہیں ؛ کیونکہ محض نفی مدح