کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 587
واقع نہ ہو گی۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن و انس ایک میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں ؛اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں ؛ تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی نہیں ہو گی جتنی سمندر میں سوئی ڈبونے سے ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! تم مجھے ہر گز نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے؛ نہ مجھے نفع دینے کی سکت رکھتے ہو کہ مجھے نفع دے سکو۔ میرے بندو !میں تو تمہارے اعمال گن گن کے رکھتا ہوں اور ان پر تمہیں پوری پوری جزاء دیتا ہوں جس نے اچھائی پائی وہ (میری) اللہ کی تعریف کرے اور جو اس کے علاوہ کسی چیز کو پائے وہ صرف خود کو ہی ملامت کرے۔‘‘[1]
معلوم ہوا ثواب پر اللہ کا شکراور تعریف کرنا اس لیے ہے کہ یہ اسی کے احسان اور پیدا کردہ اسباب سے ممکن ہوا۔ عذاب اور سزا اس کا عدل ہے ؛ جس پر بندہ خود کوہی ملامت کرے؛ جیسے کہا گیا ہے:
کل نعمۃ منہ فضل وکل نقمۃ منہ عدل
’’اس کی ہر نعمت اس کا فضل ہے؛ اور اس کی طرف سے ہر انتقام اس کا عدل ہے۔‘‘
اس قول کے قائلین کہتے ہیں کتاب و سنت اسی قول کو بیان کرتے ہیں ۔ اللہ نے کئی مواقع پر ممکن اور مقدور بھر ظلم کی نفی کی ہے۔ مثلاً اس کی نیکیاں کم کرے یا دوسروں کی برائیاں اس پر ڈالے۔ رہا مسئلہ خلق افعال عباد اور اس میں خاص کر اھل ایمان کی اطاعت پر مدد کرنا بالاتفاق اہل سنت اور دیگر مذاھب جو تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں کے ہاں ظلم نہیں جب کہ قدریہ اسے ظلم کہتے ہیں اور تعدیل و تجویز کے متضاد اور فاسداقوال کے قائل ہیں جیسا کہ کئی مواقع پر وضاحت کر دی گئی۔
[گناہ کی سزابغیر ظلم کے؛پر تبصرہ]
رافضی مصنف کا قول ہے :’’ اَوْ یعذبہ بجرمہٖ من غیر ظلم لہٗ ‘‘(یا اسے جرم کی وجہ سے عذاب دے بغیر ظلم کے) یہ بات مسلمانوں میں متفقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نا فرمانوں کو عذاب دیکر ظلم نہیں کرتا۔ اختلاف اس بات میں ہے ظلم کیا ہے؟ ایک گروہ کہتا ہے: اس سے ظلم ممتنع ہے ۔دوسرا کہتا ہے : اس نے اس جگہ جرم کی سزا کو رکھا ہے۔ اور ظلم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کی جگہ پر نہ رکھا جائے۔ عرب کہتے ہیں : مَن اشبہ اباً فما ظلم (جس نے باپ سے مشابہت کی اس نے کوئی ظلم نہیں کیا)۔اور یہ بات معلوم ہے کہ بندوں میں سے جب کوئی کسی کے ظلم کی وجہ سے اس پر ظلم کرتا ہے تو یہ عدل ہوتا ہے نہ کہ ظلم۔
اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ نے اس کے فعل کو پیدا کیا ہے اور وہ اس کی قضا و قدر کے تحت ہے جب مخلوق، مخلوق کو ظلم پر عذاب دیتے ہوئے ظالم نہیں ۔ اگر وہ یہ جان لے کہ یہ اس کے لیے مقدر میں رکھ دیا گیا ہے تو خالق
[1] امام نووی شرح مسلم 133؍16 میں فرماتے ہیں المخیط سوئی کو کہتے ہیں اہل علم کہتے ہیں یہ بات سمجھانے کے لیے مثال ہے حقیقت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔