کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 586
صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں سے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:’’ اللہ اعلم بما کا عاملین۔‘‘[1] ان احادیث اور اقوال پر مفصل بحث دوسری جگہ مثلاًدرء تعارض العقل والنقل میں کی گئی ہے۔ دوسرا قول :قائلین قدر کے ہاں ظلم کا مفہوم۔ دوسرا قول: یہ ہے کہ ظلم ممکن اور مقدور ہے۔ اللہ اپنے علم و عدل کی وجہ سے ظلم نہیں کرتا۔ وہ کسی پر دوسرے کا گناہ نہیں ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾[اسراء ۱۵] ’’کسی ایک پر دوسرے کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا ھَضْمًا﴾[طہ ۱۱۲] ’’اور جو شخص اچھی قسم کے اعمال کرے اور وہ مومن ہو تو وہ نہ کسی بے انصافی سے ڈرے گا اور نہ حق تلفی سے۔‘‘ اس بنیاد پر کسی کو دوسرے کے گناہ کے سبب سزا دینا ظلم ہے اللہ رب العزت اس سے پاک ہے۔رہی یہ بات کہ مطیع کو اجر و ثواب دینا؛ تو یہ اس کا فضل و احسان ہے اگرچہ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ وعدے کی لازما پاسداری کرتا ہے۔ اس نے اپنے اوپر ظلم حرام کر رکھا ہے۔ اس کے اسماء و صفات اسی کا تقاضہ کرتے ہیں ۔یہ مالک کے ظلم جیسا نہیں جو کام پورا لیتا ہے مگر اجرت پوری نہ دے۔ یہ مزدوری تو مالک کا کام پورا کرنے کا معاوضہ ہوتی ہے اگر پوری نہ دے تو ظلم ہے۔اللہ نے تو اوامرونواھی اور اطاعت کی توفیق ؛ اور بھلائی کے کاموں ان کے تعاون کے ذریعے بندوں پر احسان کیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے: ’’اے میرے بندو! میں اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا اور تمہارے مابین بھی اسے حرام ٹھہرایاہے؛ میرے بندو آپس میں ظلم نہ کرو۔ تم سب گمراہ ہو مگر میں جسے ہدایت عطا کر دوں ؛ سو مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو !تم سب بھوکے ہو مگر جسے میں کھلا دوں ؛ تم سب مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو مگر میں جسے پہنا دوں ؛ مجھ سے کپڑے مانگو میں تمہیں پہناؤں گا ۔ میرے بندو !اگر تمہارے اول و آخر؛ جن وانس ؛تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار کے دل جیسے ہو جائیں ؛ اس سے میری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں ہو گا۔ اے میرے بندو! تم سب جن و انس اپنے سب سے فاجر آدمی جیسے ہو جاؤ؛ میری بادشاہت میں کچھ کمی
[1] بخاری 100؍2، 123؍8، مسلم 2047؍4، مسند احمد 7512,7321، مسند الطیاسی 235؍2۔