کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 582
کیا ہے کہ یہ حِسّ کے برعکس اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔[1] جمہوراہل سنت (متبعین سلف اور ائمہ) کہتے ہیں بندے کا فعل اس کا اپنا حقیقی فعل ہے لیکن اللہ کی مخلوق اللہ کے لیے کیا گیا فعل ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ یہ اللہ کا فعل یہ خلق اور مخلوق او رفعل اور مفعول میں فرق کرتے ہیں ۔ (یہ فرق امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’خلق افعال العباد‘ میں جلیل القدر علماء سے نقل کیا ہے۔[2] یہی بات کئی ائمہ سلف سے منقول ہے احناف ، جمہوریہ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذھب ہے۔ امام بغوی[3]نے چوٹی کے علماء اھل سنت سے اور ’’التعرف لمذھب أھل التصوف‘‘ میں کلا باذی نے تمام صوفیاء سے یہی نقل کیا ہے۔[4] اکثر ھشامیہ ، معتزلتہ، کرامیہ، اھل کلام کا یہی قول ہے اسی طرح کلابیہ اور اشعری ائمہ کا یہی مؤقف ہے، ابو علی تقفی وغیرہ کے بقول کرامیہ کا قول ہے کہ فعل کا اثبات کے لیے مفعول کے علاوہ اسی طرح انہوں نے اللہ کے لیے ارادہ قدیمہ ثابت کیا ہے اور دیگر اعتقادیات کا بھی ذکر کیا ہے جب ان اور ابن خزیمہ کے مابین مسئلہ قرآن میں تزاع پیدا ہوا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ یہ ابن کلاب کا اپنا قول ہے یا انہوں نے اس اصل کی بناء کر کہا ہے؟ خلق افعال عباد اور رافضی عقائد : مسئلہ صفات کی طرح مسئلہ قدر میں بھی روافض کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اعمال عباد میں رافضہ کا اختلاف ہے کیا یہ مخلوق ہیں ؟ کیا یہ اللہ کی مخلوق ہیں ؟ اللہ کے لیے مخلوق ہیں ؟ یہ تین فرقے ہیں ۔ پہلے فرقے میں سے ھشام بن حکم ہیں ان کے مطابق افعال عباد اللہ کے لیے مخلوق ہیں ۔ جعفر بن حرب نے ھشام بن حکم نے بیان کیا وہ کہتے تھے انسان کے افعال میں ایک لحاظ سے اسے اختیار ہے اور ایک لحاظ سے مجبور ہے۔ ارادے اور کسب کے لحاظ سے اختیار لیکن ابھارنے والے
[1] نظام کے طفرہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں :الملل والنحل 58,57؍1، مقالات الاسلامیین 18؍2 [2] امام بخاری اپنی کتاب کے صفحہ 9۔10 پر فرماتے ہیں لوگ کا فعل، فاعل اور مفعول میں اختلاف ہوا ہے۔ قدریہ کے بقول تمام افعال انسان کے ہاں اللہ کی طرف سے نہیں ، جبر یہ کے ہاں سب افعال اللہ کی طرف سے ہیں ۔ جھمیہ کے ہاں فعل مفعول ایک چیز ہے اسی وجہ سے کہتے ہیں ہر ایک کی مخلوق ہے۔ اھل علم کہتے ہیں تخلیق اللہ کی فعل ہے اور ہمارے افعال مخلوق ہیں اللہ کا فعل اس کی صفت ہے اور اس کی مخلوق کا فعل مفعول ہے) [3] حسین بن مسعود المعروف حراء ان کے حالات 457؍1 میں گزر چکے نیز دیکھیے، تذکرہ الحفاظ 1257؍4، الاعلام از زر کلی 2 [4] (التعرف لمذھب اھل التصوف از کلا باذی متوفی 380، ص 9، طبع عیسی حلبی 1960؍1380 میں ہے علماء کا اتفاق ہے کہ اللہ تمام بندوں کے افعال کا خالق ہے جس طرح وہ ان کا خالق ہے لوگ جو بھی بھلائی یا برائی کرتے ہیں اللہ کی قضاء وقدر سے ہے پھر فمراتے ہیں اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان کے افعال اور اکتساب حقیقی ہے اس پر انہیں جزاء و سزا ملتی ہے اسی وجہ سے امر نہی اور وعد و عید موجود ہے ابن تیمیہ نے بھی کلا بازی کے کلام کی طرف اشارہ کی اہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ 458؍1