کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 581
اپنے غیر کے لیے کلام، نماز، روزہ یا طواف پیدا کیے ہیں تو یہ غیر ہی متکلم، مصلی، صائم اور طائف کہلائے گا ۔ اسی طرح جب اس نے اپنے غیر میں گندی بد بو پیدا کی تو بدبودار اور گندا یہ غیر ہی ٹھہرے گا نہ کہ اللہ کی؛ صفت بنے گی جب اس نے انسان کو جلد باز اور بے صبرا بنایا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًاo اِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا oوَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا﴾ [المعارج] ’’بیشک انسان کوکمزور بنایا گیا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔‘‘ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ، جلد باز بے صبرا یا روکنے والا نہیں بنتا جیسا کہ قدریہ کہتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں :کیونکہ اس نے انسان کو ظالم اور کاذب بنایا ہے؛ تو وہ بھی ظالم اور کاذب ہوگا۔جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے۔ ۔ اس سے معلوم ہوا جمہور قائلین تقدیر کا قول: اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے درست ہے ان کا کہنا ہے اللہ نے بندے کو پیدا کیا اور اس کے ارادے قدرت اور حرکت وغیرہ کا بھی خالق ہے۔ ایک جماعت کرامیہ وغیرہ کی جن میں قاضی ابوحازم بن قاضی ابویعلی رحمہ اللہ بھی ہیں اس طرف گئی ہے کہ اس کا مطلب ہے اللہ بندوں کے افعال کے اسباب کا خالق ہے بندہ ان اسباب کا فاعل یا عدم فاعل ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ بندہ انہی اسباب کی طرف جائے گا جو اس نے پیدا کیے ہیں ان کے بقول بندے کے افعال خود اپنے ہیں اللہ کی طرف سے نہیں اللہ ان کا خالق ہے مگر تکوین نہیں دیتا۔ یہ کہتے ہیں بندے میں کبھی ارادہ پیدا ہوتا ہے ہاں ارادہ ضروریہ کا خالق اللہ ہے جیسا کہ قاضی ابو حازم رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں بندہ اپنے ارادہ کو مطلقاً پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ قدریہ کا قول ہے۔ لیکن اللہ اپنے پیدا کردہ اسباب کو آسان کر دیتا ہے جن کے متعلق اللہ جانتا ہے کہ وہ ان میں واقع ہو گا۔ لیکن جمہور کے بقول یہ فعل ہی مفعول ہے جیسا کہ جہم بن صفوان اور اس کے اشعری متبعین اور مالکیہ، شوافع اور حنابلہ رحمہم اللہ کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ بندوں کے افعال اللہ کا فعل ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہی فعل ان کا بھی ہے تو اس سے ایک فعل کے دو فاعل لازم آئیں گے جیسا کہ ابو اسحاق اسفرائنی نے بیان کیا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ ان کا فعل ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ بندوں کے افعال اللہ کے فعل ہیں نہ کہ عبادت؛ جیسا کہ جہم بن صفوان ، اشعری اور اصحاب ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں ان کی موافقت کرنے والوں نے کیا ہے۔ خلق ہی مخلوق ہیں بندوں کے افعال اللہ کی خلق ہیں یہ اللہ کے فعل اور مفعول ہیں جیسے کہ اس کی خلق اس کی مخلوق ہے۔ یہ سب یہ نہیں کہتے بندے اپنے افعال کے حقیقی فاعل ہیں ؛مگریہ ان کا اکتساب کرتے ہیں ۔ لیکن جب ان سے فعل اور کسب میں فرق کرنے کو کہا جاتا ہے تو کوئی معقول جواب نہیں دے پاتے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے تین کلام انتہائی عجیب ہیں ۔ احوال ابوہاشم ؛طفرہ نظام ؛اور اشعری کا کسب۔ اس لیے ائمہ اور جمہور عقلاء نے ان پر رد