کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 580
نہیں ۔ بہر صورت جب ان کی مراد یہ ہے کہ وہ ان امور پر قادر ہے جن کی اس کے پاس قدرت ہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ کہا جائے وہ اپنے ہر علم کا عالم ہر مخلوق کا خالق ہے اس طرح کی جتنی بھی عبارتیں ہیں سب بے فائدہ ہیں ۔ یعنی جیسے کوئی کہے وہ اپنے تمام مفعولات کا فاعل ہے جیسے یہ کہا جائے زید ہر اس چیز کا عالم ہے جسے وہ جانتا ہے اور ہر اس چیز پر قادر ہے جس کی قدرت رکھنا ہے اور اپنے ہر فعل کا فاعل ہے۔
مقدورات کے بیان میں ان سے سوال کیا جائے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے؟ تو ان امامیہ اور ان کے شیوخ قدریہ کا جواب ہے وہ ہر چیز پر قادر نہیں ۔ بندے جن پر قادر ہیں ان پر اللہ قادر نہیں ۔ وہ گمراہ کو ہدایت دینے کی، ہدایت یافتہ کو گمراہ کرنے کی، کھڑے کو اپنے اختیار سے بیٹھنے کی اور بیٹھے کو کھڑے ہونے کی کسی مسلمان کو نمازی، حاجی، روزہ دار ، عمرہ کروانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ کسی کو مومن ، کافر، نیک، بد بنانے کی صبر دینے کی، بخل سے روکنے کی طاقت نہیں ۔ حالانکہ یہ سب امور اس کے لیے ممکن ہیں جب کہ یہ کہتے ہیں اللہ ان پر قادر نہیں ان کے قول قادر علی جمیع المقدورات کے انتہائی بودا ہونے کے لیے یہی کافی ہے، جب کہ اھل سنت کہتے ہیں : ﴿ اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾(فصلت ۳۹)۔ اس میں یہ سب چیزیں بھی آتی ہیں ۔
ہاں کسی چیز کا بیک وقت موجود اور معدوم ہونا نا ممکن ہے ایسی کسی چیز کا وجود غیر تصوری ہے اھل عقل اسے شے نہیں قرار دیتے اس طرح کی چیزوں میں اللہ کا اپنا مثل پیدا کرنا وغیرہ ہیں ۔
[اللہ تعالیٰ عادل اورحکیم ہیں ؛پر تبصرہ:
٭ (مصنف کا قول: ’’ وہ عادل اور حکیم ہے کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی برا کرتا ہے ورنہ جہالت اور حاجت مندی لازم آتی ہے)۔ اللہ ان دونوں سے مبراء اور بلند ہے۔
٭ [جواب:]یوں کہا جائے گا کہ مسلمان میں یہ بات اتفاقی ہے کہ اللہ نہ تو برا کام کرتا ہے اور نہ ہی کسی پر ظلم کرتا ہے۔ لیکن اختلاف اس کی تفسیر میں ہے کہ جب وہ بندوں کے افعال کا خالق ہے تو یہ تو برا کام اور بندوں پر ظلم ہے یا نہیں ؟قائلین تقدیر اھل سنت کہتے ہیں یہ ظلم ہے نہ فعل قبیح۔ اور قدریہ کہتے ہیں :’’ جب وہ بندوں کے افعال کا خالق ہے تو یہ ظلم اور فعل قبیح ہے۔ فاعل کے فعل کی قباحت اس بات کا تقاضہ نہیں کرتی کہ قباحت خالق کی طرف سے ہے۔ جیسے ’’فاعل کا کھانا پینا اپنے خالق کی کمزوری کی دلیل نہیں ۔ کیونکہ خالق کی مخلوق بذات خود قائم نہیں رہ سکتی، یہ صفت تو اس کی ہے جس کے ساتھ فعل قائم ہو نہ کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے اپنے غیر میں ۔ مثلاً جب اس نے اپنے غیر کے لیے رنگ ہوا، حرکت، قدرت اور علم پیدا کیا تو وہ غیر اس رنگ، ہوا، حرکت قدرت اور علم سے متصف ہو گا وہ ا س حرکت سے حرکت کرے گا، رنگ سے رنگت حاصل کرے گا، علم سے عالم بنے گا اور قدرت سے قادر ہو گا وغیرہ اس طرح جب اس نے