کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 58
اس لیے کہ اس امت کے پہلے لوگ جنہوں نے تصدیق ‘ علم اور عمل اور تبلیغ کی بنیاد پر اس دین کو قائم کیا ‘ ان پر طعنہ زنی کرنا دین پر طعنہ زنی کرنا اور اس دین سے اعراض کا موجب ہے جو دین دیکر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث کیا تھا ۔ شیعیت کی مصیبت پھیلانے کاپہلا ہدف ہی یہی تھا۔ اس لیے کہ ان کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین سے روکنا اور انبیاء و مرسلین کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی تعلیمات کو باطل قرار دینا تھا۔ اسی لیے یہ لوگ ملت [اسلامیہ ] میں [علمی وعملی] کمزوری کے حساب سے اپنے عقائد و خیالات کا اظہار کیا کرتے ہیں ۔ حقیقت میں ملحدین میں ان ہی گمراہ کن بدعات کا ظہور ہوا۔ لیکن ان میں سے بہت ساری بدعات نے ان لوگوں میں رواج پکڑا جو کہ خود ملحداور منافق نہ تھے۔ [ان بدعات کے پھیلنے کی] وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں میں شبہ اور جہالت پائی جاتی تھی جس کے ساتھ ہوائے نفس ملی ہوئی تھی؛ جس نے ان گمراہیوں کو قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰی oمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی oوَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی oاِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی ....سے لیکرآگے تک....اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰیoوَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی oاَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰیo تِلْکَ اِِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی oاِِنْ ہِیَ اِِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی﴾ (النجم۱۔۲۳) ’’قسم ہے تارے کی جب وہ نیچے کوچلے۔ تمھاراساتھی (یعنی پیغمبر) نہ تو بہکا ہے نہ بھٹکا۔ اورنہ (اپنے دل کی) خواہش سے وہ (کوئی) بات کرتا ہے۔اس کی جو بات ہے و ہ وحی ہے جو (اس پر بھیجی جاتی ہے۔ ........[آگے تک ] (مشرکو!) بھلا بتلاؤ تو سہی! لات اور عزیٰ اور تیسرا ایک اور بت منات (یہ کس کام کے ہیں ۔تم کو تومردو(بیٹے )ملے اور پروردگار کوعورتیں (بیٹیاں )۔یہ تواگر ایسا ہو تویہ ایک بھونڈی تقسیم ہے۔یہ بت تو نرے نام ہی نام ہے ( جن کی حقیقت کچھ نہیں ) جوتم اورتمھارے باپ دادا نے (اپنے دل سے) تراش لئے ہیں اللہ نے تو انکے (معبود ہونے کی) کوئی سند نہیں اتاری۔ یہ کافر صرف گمان پر چلتے ہیں اور جون کے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں حالانکہ ان کے مالک کی طرف سے ان کو (ٹھیک) راستہ بھی بتلایا جا چکاتھا۔‘‘ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کج روی اور گمراہی؛ جہالت اور اتباع ہویٰ(خواہشات کی پیروی) سے اپنے رسول کی تنزیہ و پاکیزگی بیان کی ہے ۔ جیساکہ [عام انسانوں کے بارے میں ] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :