کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 576
قضیہ ہے جو قائم بنفسہا ہے اور یہ قضیہ بھی قائم بنفسہ ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک اللہ کے ماسوا تمام اشیاء کے حدوث پر دلیل ہے اور یہ دونوں ایسے قضیے ہیں جو آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔
ان امور کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں مگر یہاں مقصود یہ ہے کہ اھل سنہ اور شیعہ میں سے جھمیہ اور معتزلہ کے اصولوں کا رد کرنے والے ذرائع کو بیان کیا جائے ان اور دیگر ذرائع سے واضح ہوا اللہ کے علاوہ ہر چیز حادث ہے برابر ہے یہ کہا جائے کہ حادث سے پہلے کوئی حادث ہوتا ہے یا یوں نہ کہا جائے۔ اسی طرح قدماء شیعہ اور کرامیہ وغیرہ یوں کہتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ عالم کو وجود ملتا ہے ان اشیاء سے جو اس میں حاجت کے آثار میں نظر آتی ہیں ۔ جیسا کہ واضح کیا گیا کہ عالم کا ہر ہر جز محتاج ہے یہ بذات خود وجود قائل نہیں کر سکتا اسے صانع (بنانے والے) کی محتاجی ہے۔ یوں بھی صانع کا ثبوت ہوا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ حوادث کا وجود ان سے پہلے کی نفی کرتا ہے یوں ان حدوث اس طریقے سے بھی معلوم ہوا۔ اسی وجہ سے محمد بن ھیصم( ) ان کے ہم خیال قاضی ابوحاذم بن قاضی ابویعلی ( ) اپنی کتاب ’’التلخیص‘‘ میں کہتے ہیں معتزلہ اور ان کے ہم خیال جس ذریعے سے صانع کا وجود ثابت کرتے ہیں اس سے صانع کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ پہلے حدوث عالم کو حدوث اجسام سے ثابت کرتے ہیں اور اس ذریعے سے صانع کا ثبوت کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ آغاز صانع کے ثبوت سے کرتے ہیں پھر حوادث کی ممانعت کے ذریعے حدوث عالم کو ثابت کرتے انہیں پھر جسم کو محدث کے لیے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
بہرکیف چار صورتیں بنتی ہیں یا تو حوادث کا دوام جائز ہے یا ان کے دوام کی ممانعت ہے اور واجب ہے اس کی ابتداء ہو یا پھر جسم محدث ہے یا محدث نہیں ۔ یہ سیاقوال اھل قبلہ اور غیر قبلہ کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔ یہ سب افلاک کے حدوث کے قائل ہیں اللہ نے اسے عدم سے وجود دیا ان میں سے کوئی بھی ان کے قدیم ہونے کا قائل نہیں یہ دھریہ کا قول ہے برابر ہے وہ اس کے ساتھ علت اولیٰ کی طرح عالم معقول کو ثابت کریں جیسا کہ ان میں الہیون نے کہا یا ایسا نہ کہیں جیسے ان میں سے طبعیون (نیچری) کہتے ہیں : اور برابر ہے یہ کہیں علت اولی ہی علت غائیہ (مقصودی) ہے یعنی کشی اس سے تشبہ کی وجہ سے حرکت کرتی ہے یہ ارسطو اور اس کے متعین کا قول ہے۔ یا یہ کہیں کہ علت اولی عالم کی ابتداء ہے جیسا کہ ابن سیناء اور ان کے ہم خیالوں نے کہا۔ یا قدماء خمسہ قرار دیا جائے جیسا کہ حرنانیون وغیرہ نے کہا یا صانع کی عدم موجودگی کا قول اختیار کیا جائے، برابر ہے اس کے وجود کے ثبوت کو واجب کہیں یا اسے حادث کہیں جو بذات خود نہیں ، یا مادہ کے وجود کو واجب کہیں اور بغیر محدث کے حدوث صورت قرار دیں جیسا کہ دھریہ کا قول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ کہتے ہیں یہ سب اقوال سو فسطائی اقوال کی جنس ہیں جو کسی معین قوم کا نظریہ نہیں یہ تو بس کچھ احوال میں بعض افراد کو آنے والے خیالات ہیں ۔ اگر یوں کہا جائے تو معلوم ہوا امامیہ اور معتزلہ کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ متقدمین امامیہ