کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 575
سب قدیم ہیں ۔‘‘[المحصل ۹۔الأحوال ۲؍ ۱۲۴۔ ] ابوالحسین رحمہ اللہ نے یہ گمان کیا ہے کہ:’’ اللہ عالیٰ کی صفتِ عا لمیت ایک حال ہے جو ذات کے ساتھ معلل ہے۔ اور یہ سب کے سب اگرچہ اس بات کو ممتنع سمجھتے ہیں کہ ان احوال پر لفظِ’’ قدیم ‘‘کا اطلاق کیا جائے لیکن اس کے اس حقیقی معنی پر پردہ ڈالتے ہیں ۔ پس ان سے کہا جائے گا کہ متکلمین میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ مفعول ذاتِ قدیم ہو سکتی ہے۔ خواہ وہ فاعل اپنے مشیت اور قدرت سے فعل کو صادر کرتی ہو یا یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے فاعل ہے بغیر کسی مشیت کے اور صفات تو موصوف کے ساتھ لازم ہوتے ہیں ۔ اگر کہا جائے کہ وہ تو قدیم ہے؛تو پھر بھی عقلاء میں سے کسی کے نزدیک مفعول نہیں ؛بلکہ وہ ذات کے لیے لازم ہے؛ بخلاف ان مفعولات کے جو ممکن؛ مگر فاعل سے جدا ہوتے ہیں ۔ کیونکہ بے شک یہ وہی مفعول ہے جس کے بارے میں جمہور عقلاء نے قدمِ عالم کے قائلین پرانکار کیا ہے۔ متکلمین اور باقی تمام جمہور عقلاء اس پر متفق ہیں کہ مفعول قدیم نہیں ہو سکتا۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ فاعل بالطبع ہیں ؛ جیسے اجسامِ طبعیہ کرتے ہیں ؛ تو جو کچھ اس نے متکلمین کی طرف سے ذکر کیا ہے وہ ان کے قول کا لازم نہیں ۔ پھر امام رازی نے کہا ہے کہ:’’ رہے فلاسفہ تو وہ بے شک عالمِ قدیم کی باری تعالیٰ کی طرف نسبت کو جائز سمجھتے ہیں ؛ کیونکہ وہ ان کے نزدیک موجب بالذات ہے ۔حتی کہ اگر وہ اس کے بارے میں فاعل بالاختیار ہونے کا اعتقاد رکھتے تو وہ قدیم عالم کے لیے اس کے موجب (بکسر الجیم)ہونے کو جائز اور ممکن نہ سمجھتے۔‘‘ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ:’’ اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ یہ سب کے سب ایک موجبِ قدیم کی طرف ’’قدیم ‘‘کی نسبت کے جواز اور کسی فاعل مختار کی طرف اس کے امتناع پر متفق ہیں ۔‘‘ پس ان سے کہا جائے گا کہ:’’ فلاسفہ تو ’’اللہ تعالیٰ کا اپنی مشیت کے ساتھ فعل صادر کرنے پر‘‘ رائے رکھتے ہیں ۔ابو البرکات اور دیگر تو اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے ساتھ فعل صادر کرتا ہے باوجودیکہ وہ قدمِ عالم کے بھی قائل ہیں ۔ پس یہ واضح ہواکہ جو اس نے متکلمین کی طرف سے ذکر کیا ہے وہ باطل ہے۔ اور جو اس نے فلاسفہ سے نقل کیا ہے ،وہ بھی باطل ہے۔ رہے فلاسفہ تو ان کے دو قول ہیں ۔ ان میں سے متکلمین اس قول کے بطلان پر متفق ہیں جو اُن سے نقل کیا ہے یا اُن کو اس کا الزام دیا ہے۔ بلکہ وہ اور جمہور عقلاء کہتے ہیں کہ: یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ ہر شے جو مفعول ہے وہ حادث ہی ہے۔ پھر اس کا مشیت کے ساتھ مفعول ہونا یا بالطبع ہے یا ماہیت کے ساتھ مفعول بننا یہ ۔ مقام ثانی ہے۔ اور کسی مفعول حادث ہونے کا علم اس امرپر مبنی نہیں کہ فاعل ارادہ کرنے والا ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک فعل کی ابتداء صر ف اور صرف ایک ایسی قادر ذات سے ہوتی ہے جو ارادہ کرتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا