کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 574
اشیاء ہیں جو حدوث کے ساتھ ساتھ قدیم بھی ہیں یعنی مبدَع قدیم ہیں یا اس کے مفعول قدیم ہیں ؛یا اس کے امثال بلکہ جمہور عقلاء کے نزدیک تویہ دونوں باتیں یعنی مبدا کہنا اورا س کے ساتھ قدیم کہنا جمع بین الضدین ہے اور مفعول کا اپنے فاعل کے ساتھ مقارنت کا اثبات کرنے والے قائلین جو کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ نے حرکت کی؛ تو اس کی وجہ سے انگوٹھا بھی متحرک ہوا تو یہ ایک غیر مطابق مثال ہے۔کیونکہ اس مثال میں کوئی ایسی شے تو نہیں جو علتِ فاعلہ ہو اور وہ معلول مفعول پر مقدم ہو ۔اس مثال میں تو صرف شرط یا سبب مذکور ہے ۔اور ایسی شے کے بارے میں ممکن ہے کہ وہ اپنے مشروط یا سبب کے ساتھ مقارن ہو۔یہ تب ہوگا جب ثانی کو اول کے ساتھ مقارن تسلیم کیا جائے۔ ورنہ توان کے ذکر کردہ بہت سے مقامات پر اتصال کے باوجود اس سے متاخر ہوتا ہے۔ جیسے کہ زمان کے بعض اجزاء کا بعض کے ساتھ اتصال کہ ایک دوسرے سے متاخر ہوتا ہے۔ رہا وہ کلام جو امام رازی رحمہ اللہ نے محصل اور اس کے علاوہ دیگر تصنیفات میں لکھا ہے؛ اور کہا ہے کہ : ’’متکلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قدیم ذات کا فاعل کی جانب نسبت ممتنع ہے اور فلاسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ زمان کے اعتبار سے ممتنع ہے اس لیے کہ عالم اُن کے نزدیک زمان کے اعتبار سے قدیم ہے باوجود یکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے۔‘‘[محصل أفکار المتقدمین و المتأخرین ۹۵۔] جواب:.... رازی کا متکلمین سییہ بات نقل کرنا تو صحیح ہے۔ اور یہی تمام طوائف کے جمہورِ عقلاء کا قول ہے۔ لیکن اس کا فلاسفہ سییہ قول نقل کرنا؛ تو اُن میں سے صرف ایک گروہ کا قول ہے جیسے ابن سینا۔ اور یہ ان کے جمہور کا قول نہیں ہے۔ اور نہ ہی قدوم عالم کے قائلین کا قول ہے؛ جیسے ارسطو اور اس کے متبعین ۔اور نہ ان جمہور فلاسفہ کا قول ہے جو عالم کی صورت کے حدوث کے قائل ہیں ۔بیشک جو لوگ عالم کے قدم کے قائل ہیں وہ عالم کے لیے کسی فاعل مبدع (بکسر الدال،پیدا کرنیو الا) کو ثابت نہیں کرتے جیسے ابن سینا کا قول ہے۔ بلکہ ان میں سے بعض وہ ہیں جو اس کے لیے کوئی علت ِ فاعلہ ثابت نہیں کرتے۔ اور ارسطو تو اس کے لیے ایک علت غائیہ کو ثابت کرتا ہے جس کے ساتھ فلک مشابہ ہے۔ اور اس نے کسی علت فاعلہ کو ثابت نہیں کیا جس طرح کہ ابن سینا اور اس کے امثال کا قول ہے۔رہے وہ لوگ جو ارسطو سے پہلے گزرے ہیں وہ تو آسمانوں کے حدوث کے قائل تھے جس طرح کہ باقی اہل ملل بھی اس کے قائل ہیں ۔ پھر امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:’’ میرے نزدیک تو حق بات یہ ہے کہ اس مقام میں اختلاف لفظی ہے اس لیے کہ متقدمین کسی قدیم ذات کا کسی مؤثر واجب بالذات کی طرف استنادکو ممتنع سمجھتے ہیں اور اسی طرح مثبتین کا حال ہے۔اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کی عالمیت اور اس کا علم دونوں قدیم ہیں باوجودیکہ عالمیت اور قادریت علم اور قدرت کے ساتھ معلل ہے نیز یہ کہ عالمیت معلل بالعلم ہے۔ اور ابو ہاشم نے تو یہ گمان کیا ہے کہ عا لمیت اور قادریت ،حی ہونا اور موجودیت ایک حالتِ خامسہ کے ساتھ معلل ہیں باوجودیکہ یہ سب کے