کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 573
متعلق ہوا تاکہ اجسام کے لیے ایک ایسا سبب پیدا کیا جائے جو ان کے حدوث کا مقتضی ہو۔ لیکن یہ اس کے ساتھ ایک باطل امر ہے اس لیے کہ حوادث کا حدوث بغیر سبب کے اگر ممتنع ہے تو پھر یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ تو بلا سبب حوادث کا پیدا ہونے کو متضمن ہے اور جب فاعل کے احوال تمام زمانوں میں ایک جیسے ہیں اور وہ ایک ایسی ذات ہے جس کے ساتھ امورِ اختیاریہ میں سے کوئی شے بھی قائم نہیں ہوتی ۔تو پھر یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ بعض احوال کی خصوصیت کسی ایسے سبب کے ساتھ ہو جائے جو اجسام کے حدوث کا مقتضی ہو۔ اور اگر وہ ممکن ہے تو پھر اللہ کے ماسوا تمام اشیاء کے عدم کے بعد حدوث کا قول بھی ممتنع ہے۔اور قدمائے خمسہ تو ایسے امور ہیں کہ ان کا حدوث ممکن ہے اور نیز یہ بھی کہ اس قول کے مطابق تو اللہ کی ذات اپنی معلولات کے لیے موجب بذاتہ ہوگااور غیر کے لیے فاعل بالاختیار ٹھہرے گا؛ یہ خطا ہے۔ اور دو قولین میں سے کسی ایک قول کو اختیار کرنا دوسرے کے مناقض اور منافی ہے۔اور اگر کہا جائے کہ حوادث کے حق میں جائز ہے کہ ان کے لیے صفت ِ دوام ثابت ہو تو یہ بھی ممتنع ہے ؛کہ وہ کسی عالم میں سے کسی شے کے لیے علت ازلیہ بنے۔اور ہر صورت عالم حوادث سے خالی نہیں ہوگا۔ اور اس عبارت میں اس اعتبار سے کوتاہی اور تحریف ہے بلکہ یہ تو اس کو مستلزم ہے پس یہ ممتنع ہوا کہ وہ ازل میں علتِ تامہ بنے۔ اور یہ بھی ممتنع ہوا کہ لازم کو چھوڑ کر وہ صرف ملزوم کے لیے علت بنے۔ اور یہ بھی کہ واجب تعالیٰ کے ماسوا جو کچھ بھی ہے تو ا س کو وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں ۔ اور جو شے بھی اس طرح ہو پس بے شک وہ صرف وہ اس کے عدم کے بعد ہی موجود ہوتی ہے۔ نیز یہ قول کہ کوئی مفعول معین ازلاً و ابداً اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہوتا ہے ؛تو اس کا بطلان تو بدیہی عقل سے معلوم ہے۔چونکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر اگلے پچھلے سارے عقلاء متفق ہیں ۔حتی کہ ارسطو او ر اس کے قدیم اصحاب بھی اور متاخرین اتباع کار بھی متفق ہیں کہ ہر وہ چیز جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں وہ صرف اور صرف حادث یعنی مسبوق بالعدم بن سکتا ہے ۔اور بے شک ابن سینا اور اس کے موافقین ایسے ممکن کو بھی اثبات تسلیم کرتے ہیں جو باوجود ممکن ہونے کے قدیم بھی ہو۔ فلاسفہ میں سے اس کے ہمنواؤں نے اس بات میں نکیراور اس کی مخالفت کی ہے۔ اور انہوں نے یہ واضح لکھا ہے کہ ابن سینا نے اس امر میں اپنے اسلاف کے قول کے مخالفت کی ہے۔ جیساکہ ابن رشد اور دیگرعقلاء نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ تمام جماعتوں کے اکثر عقلاء اور اہل نظر اس بات پر متفق ہیں کہ ہر وہ شے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مفعول ہے یا اس کوعدم کے بعد پیدا کیا گیا ہے ؛ یا وہ مصنوع ہے یعنی کسی مادے سے اس کو ایک خاص صورت دی گئی ہے تو ایسی چیزبہر صورت صرف حادث ہی ہو سکتی ہے ۔
اسی لئے جمہورِ عقلاء جب یہ تصور کرتے ہیں کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا اور پیدا کیا ہے تو وہ ساتھ ساتھ اس کا بھی تصور کرتے ہیں کہ اس ذات نے ان کو نیا وجود بخشا ہے۔ اور ان کی عقلوں میں یہ تصور آتا ہی نہیں کہ وہ قدیم مخلوق ہیں ۔ اگرچہ اس کو دیگر اور عبارات سے تعبیر کیا جائے مثلاًیہ کہا جائے کہ وہ ایسی حادث