کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 572
کا قول حوادث کے حدوث کے دوام کا مقتضی اور موجب ہے اس لیے کہ بے شک وہ شے جو نفس کے اندر پیدا ہوتا ہے یعنی اس کے تصورات اور ارادات ،یہ بھی حوادث ہیں اور ان کے نزدیک یہ بھی دائم ہیں ۔
جب بغیر کسی سبب کے حوادث کے حدوث کا قول باطل ٹھہرا تو پھر وہاں کوئی ایسا سبب نہیں پایا جائے گا جو عالم میں سے کسی شے کے قدم پر دلالت کرے اور جن لوگوں نے کسی معلولِ معین کے بارے میں اس کے دوام کا قول اختیار کیا ہے تو انہوں نے محض اس سے بچنے کے لیے فاعلیت کے دوام کو اپنے ذمے لیا ہے پس جب یہ دونوں تقدیروں پر اس کے ذمے لازم آتا ہے تو پھر جمہور عقلاء کے نزدیک اس ممتنع کو اختیار کرنے کی اُن کو کوئی حاجت ہی نہ رہی ۔
الحاصل ازل میں اس کا فاعل ہونے کا امکان ازل میں حوادث کے حدوث کے امکان کو مستلزم ہے اسی وجہ سے ایسا کوئی شخص معلوم نہیں جس نے حوادث کے دوام کے امتناع کو مانتے ہوئے ازل میں اس کے ذات کے بارے میں فاعلیت کا قول اختیار کیا ہو۔اس لیے کہ وہ لوگ جو نفسانی تصورات اور ارادات میں حدوث اجسام کے قائل ہیں وہ تو نفس کے اندر حوادث کے دوام کے قائل ہیں اور جو لوگ قدمائے خمسہ کے قدم کے قائل ہیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ اس کی ذات ازل میں فاعل ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ واجب بنفسہ ہے۔ اور یہی ان سے منقول ہے ۔ بسا اوقات وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے معلول ہے ،مفعول نہیں ۔
پس اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ازل میں فاعل ہے اور ازل میں حدوث کا وجود ممتنع ہے تو اس کے فاعلیت کے وجوب اور اس کی فاعلیت کے امتناع کو جمع کر دیا گیا جو کہ جمع بین الضدین ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ: قدیم توفعل کو صادر کرتا ہے ؛ مگرحادث فعل کو نہیں صادر کرتا۔
تو جواب یہ ہے کہ: یہ تو قدیم ذات کے تغییر کو ثابت کرتا ہے اس لیے کہ مفروض تو یہ ہے کہ معلولِ قدیم کے اندر حوادث پیدا ہوئے بعد ا س کے کہ وہ نہیں تھے بغیر کسی سببِ حادث کے۔ اور معلولِ قدیم میں تبدیلی جائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ تو علتِ تامہ ازلیہ کے تغیرکا تقاضا کرتا ہے۔ پھر اس تقدیر پر وہ اللہ کیلئے ایک قدیم معلول ذات کے اثبات کو متضمن ہے؛ یا پھر ایسے چند قدیم ذوات کے اثبات کو مستلزم ہے جو اللہ کی ذات کے لیے معلول ہوں ۔ ساتھ ہی اس قدیم ذات میں ایسے حوادث بھی پیدا ہوں جو دائمی ہوں ۔ یا اس میں حوادث کا حدوث صفتِ تجدید کے ساتھ ہو؛ تو یہ حدوثِ عالم کا قول ہے۔ جس طرح کہ دیمو قراطیس اور محمد بن زکریا رازی سے منقول ہے۔ یہ مسئلہ اپنے مقام پر تفصیلاً بیان ہوچکا ہے۔ اور جیسے یہ ان لوگوں کا بھی عقیدہ ہے جو تمام اجسام کے حدوث کے قائل ہیں ۔ اور رازی رحمہ اللہ ان دونوں کو ایک ہی قول قرار دیتے ہیں ۔ اس نے اپنی کتاب ’’المحصل ‘‘میں اور دیگر کتابوں میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لیے کہ حرنانیین سے قدمائے خمسہ کا عقیدہ منقول ہے ۔ اس پر انہوں نے نفس کے تصور کی بنیاد رکھی ہے۔ اورپھر اس نفس کے اندر ایک عشق پیدا ہوا؛ اور پھر ھیولیٰ کے ساتھ