کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 571
کہ معدوم تھے تو وہ شے جو اس کے ساتھ متصل ہے اور اس پر مقدم نہیں ہے وہ بھی موجود ہوا بعد اس کے کہ موجود نہیں تھا اور اگر عالم میں حوادث عارض ہیں یعنی اس کے ساتھ لازم نہیں ہیں تو پھر بغیر کسی سبب کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا اور ثابت ہوگا اور جب بغیر کسی سبب کے حوادث کا حدوث جائز اور ممکن ہوا تو عالم کا بھی بلا کسی سببِ حادث کے وجود ممکن ہوا پس ہر ایسی حجت باطل ہو گئی جو عالم کے قدم کا موجب اور مقتضی ہو۔اور عالم کے قدم کا قائل اس قو ل کو بلا کسی حجت کے اختیار کرنے والا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات تو جائز ہے کہ کسی علت کی وجہ سے عالم قدیم ہو اس کے اندر بغیر کسی حادث کے حدوث کے اور پھر اس کے اندر حوادث پیدا ہوئے تو یہ بھی باطل ہے اس لیے کہ جب یہ بات ممکن ہے کہ وہ علت اس عالم کو پیدا کر دے بعد اس کے کہ وہ علت پہلے محدث نہیں تھی تو پھر وہ موجب نہیں بنی بلکہ وہ تو فاعل بالاختیار والمشیۃ بنی اور اپنے اختیار اور مشیت کے ساتھ جو فاعل ہوتا ہے اس کا مفعول اس کے مقارن نہیں ہوتا جس طرح اپنے مقام پر اس کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے بھی کہ اسمفروضہ پر تو واجب ٹھہرا کہ اس کے مفعولات میں سے کوئی قدیم مفعول بھی اس کے مقارن ہو۔ اور یہ بھی لازم آئے گا کہ وہ حوادث کے پیدا کرنے تک فعل سے معطل رہے۔ پس اس کی تعطیل اور فعل دونون کا ایجاب جمع بین الضدین ہے۔ اور یہ تخصیص بلا مخصص ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تین حال سے خالی نہیں :یا تو وہ ازل میں فاعل ہوگا یا ازل میں اس کی فاعلیت ممتنع ہوگی ؛یا دونوں امر جائز ہونگے۔ اگر ازل میں اس کا فاعل بننا واجب ہے تو پھر ازل میں حوادث کا حدوث بھی جائز اور ممکن ہے اور یہ بات واجب ہے کہ ان کے لیے کوئی ابتداء نہ ہو یعنی وہ ازلی ہوں اور مفروض تو یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی ابتداء ہے اور حوادث ازلیہ ممتنع ہیں ۔اور اگر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازل میں فاعل ہوں پھر یہ بھی ممتنع ہوگا کہ اس کی ذات کے علاوہ کوئی شے قدیم ہو اورازل میں ہو اور پھر عالم کا قدم جائز نہیں ہوگا ایسے حال میں کہ وہ حوادث سے خالی ہو اور نہ حوادث کے ساتھ ۔ اگر ازل میں اس کا فاعل ہونے اور فاعل نہ ہونے دونوں کو جائز قرار دیا جائے تو پھر تو یہ بات ممتنع نہیں ہوگی کہ وہ ازل میں فاعل بنے۔ لہٰذا ازل میں حوادث کا حدوث جائز اور ممکن ٹھہرے گا۔ بلکہ وہ تو غیر حوادث کے لیے فاعل ہے پھر وہ ازل میں حوادث کو پیدا کر دیتا ہے۔ جس طرح کہ ان لوگوں کا قول ہے جو عقول اور نفوس کے قدم کے قائل ہیں ۔ اوریہ کہ اجسام ان بعض تصورات اور ارادات سے پیدا ہوئے جو نفس میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اور جیسے کہ ان لوگوں کا قول ہے جو ذوات خمسہ قدیمہ کے قائل ہیں ۔ تو پھر یہ سب سے زیادہ فاسد قول ہوا۔ اس لیے یہ تو بلا ایسے سببِ حادث کے حوادث کے پیداہونے کو مستلزم ہے جو ان کے حدوث کا مقتضی ہو۔ کیونکہ وہاں تو کوئی ایسا امر نہیں پایا جائے گا جو حوادث کے حدوث اور تجدد کا مقتضی ہو۔ ساتھ اس کے کہ نفس کے قدم کے قائل