کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 570
فاعل علت تامہ نہیں اور جب وہ علت تامہ نہیں تو قدیم نہیں ۔ ان حوادث ِ عالم کے بارے میں اگریہ کہا جائے کہ یہ اس کے لوازم ذات میں سے ہیں ؛ تو یہ ممتنع ہے کہ علت تامہ ازلیہ صرف اپنے ملزوم کے لیے علت بنے نہ کہ لازم کیلئے۔نیز یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اپنے لازم کے لیے علت بنے اس لیے کہ علت تامہ ازلیہ کسی بھی شے کے حدوث کا مقتضی نہیں ہوتا۔ اور اگر حوادث اس کی ذات کے لوازم میں سے نہ ہوں تو پھر وہ حادث بعد العدم ہونگی۔ پس اگر اس کے لیے کوئی محدث نہ ہو تو لازم آئے گا کہ حوادث بغیر کسی محدث کے وجود میں آئے۔ اور اس کا بطلان تو بدیہی طور پر معلوم ہے۔ اور اگر اس کے لیے واجب بنفسہ کے علاوہ کوئی محدث ذات ہو تو اس ذات کا ان حوادث کو پیدا کرنے میں قول اُس قول کی طرح ہے جو بعینہ اس محدث ذات میں ہے اور اگر واجب بنفسہ بعینہ وہی محدث ذات ہے تو پس بتحقیق اس سے حوادث پیدا ہوئے بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے۔ اور جب صورت حال یونہی ہے تو پس وہ متغیر ہوا اور حوادث کے لیے عدم کے بعد محل بنا ۔ اور علتِ تامہ ازلیہ کے متعلق یہ بات جائز نہیں کہ اس پر تغیر آجائے یا ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیلی آجائے۔ اور کیونکہ اس کا متغیر ہونا ضرور کسی سببِ حادث سے ہوگا۔ اور علتِ تامہ ازلیہ کے بارے میں یہ ممکن نہیں کہ اس کی ذات میں کوئی حادث پیدا ہو۔کیونکہ اگر اس کی ذات میں کوئی حادث پیدا ہوا باوجود یکہ کوئی شے متجدد اور نیا پیدا نہیں ہواتو پھر توحدوث بلا سبب لازم آئے گا ۔اور اگر اس کی ذات میں کوئی سببِ حادث نہ ہوتو بغیر فاعل کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا پس یہ بات باطل ہوئی کہ وہ علتِ تامہ ازلیہ بنے ۔ اگر کوئی جائز قرار دینے والا اس کو جائز قرار دے کہ ایسی علتِ تامہ ازلیہ کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال جائز ہے تو پھر یہ بھی جائز ہوگا کہ عالم عدم کے بعد حادث ہو۔پس ان لوگوں کی دلیل باطل ہو گئی جو قدمِ عالم کے قائل ہیں ۔ نیز یہ بھی اس مفروضہ کی بنیاد پر ہے کہ وہ ذات جو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ صر ف فاعل بالاختیار ہی ہو؛ نہ کہ موجب بالذات۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حوادث یا تو ایسے ہونگے کہ ان کا دوام جانبِ ازل میں جائز ہوگا یا واجب ہوگا کہ اس کے لیے کوئی اول ہو۔ پس اگر یہ واجب ہواکہ اس کے لیے کوئی اول ہے تو پھر ان لوگوں کا مذہب باطل ہوا جو عالم کے قدم کے قائل ہیں ؛ اورکہتے ہیں کہ حرکتِ افلاک ازلی ہے۔ اور نیز یہ بھی کہ جب یہ بات واجب ہوئی کہ اس کے لیے کوئی اول ہے تو پھر حدوثِ عالم لازم آیا اس لیے کہ وہ تو حوادث کو متضمن ہوا پس بے شک یا تو وہ حوادث کو مستلزم ہوگا یا حوادث اس کے لیے عارض ہونگے ۔ اگر وہ اس کے لیے مستلزم ہے تو یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ ان سے خالی نہیں ہو سکتا اور جب اس کے لیے کوئی ایسی ابتدا بھی ہوگی جو اس کی ذات سے لازم ہے اور وہ ان سے خالی نہیں ہوتا اور ان پر سابق بھی نہیں ہوتا اور متقدم بھی نہیں ہوتا پس جب یہ بات فرض کر لی گئی کہ حادث سب کے سب موجود ہونے والے ہیں بعد اس کے