کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 569
عرضی ہیں اور اس کے لیے غیر مقوم ہیں ؛ جوکہ خارجی وجود کے بغیر اس کی خارجی ماہیت کو لازم ہیں ؛ تو یہ کئی اعتبارات سے باطل کلام ہے۔اسے کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ صفات دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں :ایک وہ جو موصوف کے لیے لازم ہیں ۔ دوسرے جو صرف اس کے لیے عارض ہیں۔ جس طرح کہ اہل اسلام کے تمام مکاتب فکر کے اہل نظر کی رائے ہے۔ اور مسلمان اہل نظر کا کلام حد اور برہان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اور صریح معقول میں ان کا کلام فلاسفہ یونان اور ان کے متبعین کے کلام کی بہ نسبت زیادہ اصح ہے۔ او ر یہ کہ انسان کے نفسِ حدوث کے ذریعے اس کا صانع پہچانا جا سکتا ہے۔یہی حال ہر اس چیز کاہے جس حدوث مشاہد اور دیکھنے میں آتا ہے۔ اور یہی طریقہ قرآن میں مذکور ہے۔ نیز یہ بھی کہ وجود تو کسی ایسے موجود کے اثبات کو مستلزم ہے جو قدیم اور واجب بنفسہ ہو۔ اور ہم بالیقین یہ جانتے ہیں کہ موجودات میں بعض وہ ہیں جو حادث ہیں ۔ پس بدیہی طور پر یہ بات معلوم ہوئی کہ موجود دو قسم پر ہے :ایک قدیم ،واجب بنفسہ اوردوسراحادث ۔ طرق اثبات حدوث عالم : رہا حدوثِ عالم تو اس کا علم نقل اور عقل دونوں سے ممکن ہے اس لیے کہ صانع کے وجود پر علم ممکن ہے یا ضرورتاً اور بدیہی طور پر اور فطرتِ سلیمہ کے ذریعے یا حوادث کے حدوث کے مشاہدہ کے ذریعے۔ یا اس کے علاوہ دیگرا ورامور دالہ کے ذریعے۔ پھرجن طر ق کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدق معلوم ہو جاتا ہے؛ معجزات کی دلالت بھی ان طرق میں سے ایک طریق ہے۔ ایسے ہی تصدیق کا راستہ معجزات میں منحصر نہیں ہے پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحدوثِ عالم کا خبر دینا اس کے ذریعے بھی پتہ چلتا ہے ۔ رہا عقلی دلائل تو یہ امرمعلوم ہے کہ عالم اگر قدیم ہوتا تو وہ دو حال سے خالی نہیں : ۱) یا واجب بنفسہ ہوگا تو یہ باطل ہے۔ اس پر تنبیہ پہلے گزرچکی ہے۔ یعنی کہ عالم کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء غیر کا محتاج ہے اور غیر کا محتاج واجب بنفسہ نہیں بن سکتا ۔ ۲) یا پھر واجب بغیرہ ہوگا۔تو اس کا مقتضی موجب بذاتہ ہوگا ۔یعنی وہ اپنے مقتضی کو مستلزم ہوگا۔ خواہ وہ ارادہ کرنے والا ہو یا نہ ہو۔پس بے شک قدیمِ ازلی کو اگر یوں فرض کر لیا جائے کہ وہ معلول او ر مفعول ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایک ایسی علتِ تامہ ہو جو ازل سے اس کی مقتضی ہو۔ اور یہی تو موجب بذاتہ کہلاتا ہے۔ اور اگر اس کا مبدع(پیدا کرنے والا ) ایسی علتِ تامہ کے لیے موجب بذاتہ ہے جس سے اپنا معلول بالکل متاخر نہ ہو۔ تو وہ اور حوادث تو عالم میں مشہود ہیں یعنی نظر آتے ہیں پس یہ بات معلوم ہوئی کہ اس کا