کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 568
پاگل ہے۔اس نے کہا جو مشرق و مغرب کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم سمجھتے ہو۔‘‘
تو فرعون نے کہا:
﴿ قَالَ فَمَن رَّبُّکُمَا یَا مُوسَیo قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ أَعْطَی کُلَّ شَیْْء ٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَی ﴾
’’اس نے کہا تو تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ!؟کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔‘‘[طہ ۴۹۔۵۰]
تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب ایسا جواب تھا جو ایسے متجاہل شخص کو دیا جاتا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حق کو جانتا نہیں حالانکہ اس کے دل میں وہ بات معلوم و معروف ہوتی ہے اس لیے کہ فرعون کایہ سوال کرنا:﴿ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾(شعراء23)’’ اور رب العالمین کیا چیز ہے؟۔‘‘ یہ اس کے وجود کے انکار پر مشتمل سوال ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ماہیت کو پہچاننے کے لیے استفہام نہیں ۔ جس طرح کہ متاخرین نے یہ گمان کیا اور انہو ں نے کہا کہ ’’فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے رب العالمین کے ماہیت کے بیان کا مطالبہ کیا۔ تو آپ نے جواب دیتے میں دوسرا راستہ اختیار کیا اس لیے کہ اس ماہیت کو ذکر کر کے جواب دینا تو ممتنع تھا۔یہ بات ان کی غلطی ہے ۔اس لیے کہ فرعون صانع کا بالکل اقرار کرنے والا نہیں تھا بلکہ وہ تو ا س کا منکر تھا اور اس کا استفہام تو صانع کے وجود کے انکار پر مشتمل استفہام تھا اس لیے تو کہا:
﴿ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ﴾[قصص۳۸]
’’ میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانتا۔‘‘
اور یہ کہا کہ : ﴿انا ربکم الاعلیٰ ﴾۔’’میں تمہارا رب اعلی ہوں ۔‘‘
اگر وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقراری ہوتا؛اور وہ اس کی ماہیت کی معرفت کا طالب ہوتا؛ تو اس طرح نہ کہتا۔ اور نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسا جواب دیتے جس ماہیت ذکر نہ ہوتی۔
یہ کہنا کہ ماہیت سے وہی ماہیت مراد ہے جس کو مناطقہ ذکر کرتے ہیں جو ذاتی مشترک اور ذاتی ممیز کے ذکر کو ملا کر جواب دیاجاتاہے؛ جو کہ جنس اور فصل کہلاتے ہیں ۔یہ ایک باطل بات ہے۔ جس پر کئی مقامات پر تفصیلی رد کیا جا چکا ہے؛ اور یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ وہ ماہیت جو وجودِ خارجی کے مغایر ہے؛ وہ وہ ہے جس کاذہن میں تصور کیا جاتا ہے اس لیے کہ ذہن میں جو صورتِ ذہنیہ ہوتے ہیں وہ بعینہ موجوداتِ خارجیہ نہیں ۔
رہا منطقِ یونان والوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ خارج کے اندر ایک اور ماہیت ایسی پائی جاتی ہے جو اس ماہیت (یعنی موجودفی الذہن )کی غیر ہے اور یہ کہ صفاتِ لازمہ دو قسموں کی طرف تقسیم ہوتے ہیں :ایک وہ جو ذات کے ساتھ لازم ہیں اور اس کے لیے مقوم اور ماہیت کے اندر داخل ہیں ۔دوسرے وہ جو ذات سے جدا ہیں یعنی