کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 566
نے یہ طریقہ ایجاد کیاہے یعنی جہمیہ ،معتزلہ اور ان کے موافقین؛ توان کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ عقلاً صحیح ہے اور پیغمبروں کی نبوت پر علم اور دین اسلام کی صحت اس کے بغیر تام نہیں ہوتی ۔
ان کا یہ کہنا کہ ’’پیغمبر کی نبوت پر علم اور دین ِ اسلام کی حقانیت اس کے بغیر تام نہیں ہوتی ‘‘یہ ایک ایسی بات ہے کہ جمہور امت سلفاً و خلفاً سب نے اس پر ان میں نکیر اور رد کیا ہے۔ خاص طور پر سلف اور آئمہ کرام کا کلام اس جیسے کلام والوں کو بدعتی قرار دینے اور ان کی مذمت کرنے میں اور ان کو جہل اور عدم علم کی طرف منسوب کرنے میں ایک ایسا کلام ہے جو امور متواترہ میں سے ہے ۔ اور ایسے ہی عقلی اعتبار سے اس کی صحت کا قول بھی ایک ایسی بات ہے؛ جو جمہور آئمہ امت کے نزدیک منکر اور ناقابل قبول بات ہے۔ لیکن کرامیہ ،کلابیہ اور دیگر بعض جماعتوں نے جہمیہ اور معتزلہ کی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ اور اس کے باوجود انہوں نے ان کے ساتھ اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ دینِ اسلام کی صحت اس پر موقوف ہے یا نہیں تو اس وہ کے منکر ہیں جس طرح کہ بہت سو ں نے اس بات کو ذکر کیا ہے جیسے ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اپنے رسالے:’’رسالۃ إلی أھل الثغر بباب الأبواب ‘‘ میں لکھا ہے ۔اور خطابی اور ابو عمرو طلمنکی اندلسی اور اسی طرح قاضی ابو یعلی اور ان کے علاوہ اور مصنفین نے اس بات کو ذکر کیا ہے ۔
رہے ائمہ اہل سنت اور اہل کلام کے کئی گروہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ: یہ عقلاًبھی باطل طریقہ ہے اور دین ِ اسلام کی صحت کے منافی ہے؛ چہ جائے کہ دین اسلام کی صحت پر علم کے لیے یہ شرط قرار دیا جائے۔ اوردین اسلام کی صحت کے منافیچیز کی اس کے ساتھ کیا نسبت جو اس کی صحت کے علم کے لیے لازم ہے ۔
یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک ایسی ذات فرض کرنا جو ازل سے اپنی مشیت اور قدرت سے نہ فاعل ہو ،نہ متکلم ؛ اور پھر ان مفعولات کا حدوث فرض کرنا جو پہلے وجود میں نہیں تھے؛ پھربغیر کسی سببِ حادث کے موجود ہو ئے؛۔ جیسے ایک منظوم اور مرکب کلام۔ تو اس کا باطل ہونا صریح معقول سے معلوم ہے۔ اور یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آسمان اور زمینوں کے خالق ہونے کے بھی منافی ہے۔ اوریہ کہ قرآن اللہ کا کلام قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ بہت سے امور کہ جن کی رسولوں نے خبر دی ہے۔ بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے کسی فعل کو بھی صادر نہیں کیا اور کسی شے پر بھی اللہ نے کلام نہیں کیا بوجہ ان امور کے ممتنع ہونے کے جو انہوں نے ذکر کئے ہیں یعنی یہ کہ وہ فعال ہے یا یہ کہ اُس کے لیے دیگر صفات ثابت ہیں ۔دوسرے مقام پراس کا ذکر کیا گیاہے۔
یہاں پر مقصود ان طرق اور مقالات کی غلطی سے آگاہ کرنا ہے جو ان باطل فرقوں نے گھڑ لیے ہیں ۔
منکرین صفات کہتے ہیں : جب صانع پر علم کا اثبات اور آسمانوں اور زمینوں کا حدوث اور پیغمبروں کی نبوت پر علم کا اثبات کی بابت ہمارے طریقے باطل ہوئے تو اس کی طرف صحیح راستہ کیا ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اولاً : ہم پر اس مقام پر ان امور کا بیان کرناواجب نہیں ۔یہاں تو مطلوب یہ ہے