کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 565
پن ،گونگے پن، بہرے پن اور جہلِ بسیط میں کہتے ہیں ۔ ان امور کے عدمی ہونے کا قول فلاسفہ کا قول نہیں ہے ۔جس طرح کہ علم کلام کے بعض مصنفین نے گمان کیا ہے۔ بلکہ یہ تو اُن اہل نظر متکلمین کا قول ہے اہل قبلہ اوراہل نماز میں سے ہیں ۔ اور اس میں ان کا باہمی تنازع اور جھگڑا ایسا ہے جیسے اس کے نظائر یعنی دیگر مسائل میں ان کااختلاف ہے مثلاًاعراض کی بقا،اجسام کا تماثل اور اسکے علاوہ[دیگر مسائل میں اختلاف] ۔
اگر وہ یہ کہیں کہ یہ ایک امر وجودی ہے۔ تو وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ہر ازلی زائل ہوتا ہے بلکہ سکون کی حرکت میں تبدیلی کے بارے میں وہ وہی بات کہتے ہیں جو امتناع کا امکان میں تبدیل ہونے میں ان کے مناظر اور مخالفین کہتے ہیں ۔کیونکہ دونوں جماعتیں اس امرپر متفق ہیں کہ فعل ازل میں ممتنع تھا اور بعد میں وہ ممکن بنا اسی طرح یہ لوگ سکونِ وجودی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا ازل میں حرکت کے ساتھ تبدیل ہونا ممتنع تھاا ور بعد میں وہ ممکن ہوا۔ جس طرح کہ یہ سبھی اس کے قائل ہیں کہ حرکت وجودی میں فعل اس وقت وجو دمیں آیا جس وقت کہ حدوث ممکن ہوا ۔پس یہ ان امور میں امامیہ اور کرامیہ کاان دوسرے امامیہ اور معتزلہ کلابیہ اور ان کے اتباع کے ساتھ بحث ومباحثہ ہے جن میں یہ صرف عقل پر اعتماد کرتے ہیں ۔ معتزلہ اور روافض اور ان کے موافقین میں سے ایک گروہ نے ان کو یہ جواب دیا ہے کہ وہ دلیل جو حدوثِ عالم پر دال ہے؛ بعینہ وہی دلیل اجسام کے حدوث پر دال ہے۔ پس اگر یہ دلیل صحیح نہیں ہے تو عالم کے حدوث اور صانع کے اثبات اوراس کی معرفت کا راستہ ہی بند ہو جائے گا ۔
پس ان لوگوں سے فریق مخالف نے کہا کہ ہم تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ صانع کے اثبات اور عالم کی معرفت کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ بلکہ یہ تو اسلام میں ایک انوکھا ،مبتدع اور خودساختہ راستہ ہے۔صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت اور تابعین حضرات میں سے کوئی بھی اس راستے پر نہیں چلا۔ بلکہ یہ تو جہم بن صفوان ،ابوالہذیل علاف اور ان کے موافقین کا راستہ ہے۔ اور اگر صانع کے اثبات اور عالم کے حدوث کا علم صرف اور صرف اسی طریقے سے تام ؛ہوتا تو پھر اس طریقے کو بیان کرنا دین میں سے ہوتا؛ اور ایمان اس کے بغیر مکمل نہ ہوتا۔ اور ہم تو بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے یہ طریقہ بیان نہیں کیااور نہ اس کی دعوت دی۔ اور نہ صحابہ میں سے کسی ایک نے اس کی دعوت دی۔ پھر یہ کہنا کہ ’’ایمان اس پر موقوف ہے ‘‘یہ ایسی بات ہے کہ اسلام میں اس کا بطلان بدیہی طور پر ثابت ہے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ایک نیا طریقہ[بدعت] ہے جس پرسلف میں سے کوئی بھی نہیں چلا ۔اور لوگوں کے مابین اس کی صحت میں اختلافہے۔تو پھر یہ لوگ کیسے کہتے ہیں کہ صانع کا علم اور حدوثِ عالم کا علم اس پر موقوف ہے۔ اور انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ یہ طریقہ تو اثباتِ صانع کے علم کے منافی ہے۔ نیز اس اللہ تعالیٰ کا اس عالم کاصانع ہونے اور شرائع اور احکام کے آمر اور رسولوں کے بھیجنے والی ذات ہونے کے منافی ہے۔ پس جن لوگوں