کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 564
کی۔ انہوں نے تو ان لوگوں کے اقوال کے تناقض پراعتماد کیا ہے جو کرامیہ اور فلاسفہ میں سے ان کے مخالفین ہیں اور مجموعی طور پر ان دونوں صورتوں میں ان طوائف کے اقوال کے تناقض اور فساد پر دلالت کرتا ہے۔اور بعینہ ان میں سے کسی کے قول کی صحت پر بھی دلالت نہیں کرتا۔ اورایسی صورتِ حال ایک تیسرا قول ِ بھی ممکن ہے؛ ان دونوں اقوال یا کسی ایک قول؛سے کلابیہ کے قول کی صحت لازم نہیں آتی۔ اور ایسے ہی ان طوائف کے قول کی صحت جو کہ باہم اختلاف کا شکار اور کتاب و سنت کے مخالفین ہیں ۔ اور ان کے نزدیک تو صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے عقائد کی خرابی اور اس کے تناقض کو بیان کرتے ہیں ۔ اور خود ان کے ہاں کوئی ایسا صحیح قول نہیں ملتا جسے اختیار کیا جائے ۔ پس اس کے کلام سے مستفاد فائدہ یہ ہے کہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے کلام کو ناقض ثابت کرنا۔ [ان میں سے کسی شے کو اعتقاد اور عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا]۔ پھر اگر وہ حق بات معلوم ہو جاتی ہے جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں تو وہی صواب اوردرست؛ اور صریح معقول کے موافق ہے ۔ ورنہ تو ان کے باہمی تناقضات اور منازعات سے اتنا فائدہ تو حاصل ہوا کہ ان اعتقادات ِ باطلہ سے انسان اپنے آپ کو محفوظ کر لے؛ اگرچہ وہ خود بھی حق کو نہ پہچانے۔ پس جہل بسیط جہل مرکب سے بہتر ہے ۔اور اقوالِ باطلہ کا عدمِ اعتقاد ان میں سے کسی ایک شے کے اعتقاد سے بہتر ہے ۔ رہے معتزلہ تو اللہ کی ذات کیساتھ حوادث کے قیام کی وہ نفی کرتے ہیں ۔کیونکہ حوادث اعراض ہیں جو اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتے۔ اورجب کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ: اس کے ساتھ اعراض قائم ہو سکتے ہیں ۔ معتزلہ کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ حوادث قائم ہوں تو وہ جسم کہلائے گا؛ اور ان لوگوں نے اس بات کا التزام کر لیا ہے کہ وہ جسم ہے۔ اور ان لوگوں کی عمدہ دلیل اس کے جسمیت کی نفی میں یہ ہے کہ جسم حوادث سے خالی نہیں ہوتا۔ اور دوسرے اس کی مخالفت کرتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں یہ حوادث سے خالی ہوسکتا ہے۔ اور کہتے ہیں : باری تعالیٰ جسمِ قدیم ہے۔ جس طرح کہ تم کہتے ہو کہ یہ ذاتِ قدیم ہے۔ اور اس نے فعل اس کے عدم کے بعد صادر کیا ۔ اور تم اس کے مفعول کو بعینہ اس کا فعل قرار دیتے ہو۔ لیکن یہ دوسرے کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات کے لیے ایسا فعل ثابت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس سے جدا ہے۔ اور یہ دوسرے کہتے ہیں کہ اس کے لیے ایسا مفعول ثابت ہے جو اس کے ذات سے جدا ہے اور اس کے ساتھ کوئی فعل قائم نہیں ہوتا ۔ ان لوگوں کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ازل میں ساکن تھے؛ تو اس میں حرکت ممکن نہیں ۔ کیونکہ سکون ایک معنی وجودی ازلی ہے جو زائل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ متحرک فرض کر لئے جائیں تو پھرلا متناہی حوادث لازم آتے ہیں ۔اور یہ دوسرے کہتے ہیں کہ: وہ ازل میں ساکن تھا۔ اورو ہ کہتے ہیں کہ سکون عدمِ حرکت سے عبارت ہے۔ یا ایسی شے سے عدمِ حرکت جس کی تحریک ممکن ہو یا اس کا ایسی شے سے عدم اور نفی جس کی شان یہ ہے کہ وہ متحرک ہو۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سکون ایک امرِوجودی ہے ۔جس طرح یہی بات وہ اندھے