کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 563
خلاصہ کلام ! یہ بات ممکن ہے کہ کسی قدیم ذات سے کوئی امر بغیر کسی سببِ حادث کے صادر ہو۔ یا ممکن کے دو طرفین میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے؛ محض قدرت سے۔تو ایسی صورتِ حال میں تو یہ ممکن ہوگا کہ قادر ذات ایک ایسی شے بھی صادر کر دے جس سے وہ سکون زائل ہو جائے جو پہلے زمانے میں تھا خواہ وہ سکون وجودی ہو یا عدمی ہو ۔ منکرین صفات کہتے ہیں : اس سے تو لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حرکت ،حوادث او ر اعراض کے لیے محل بنے ؛ جبکہ یہ عقیدہ تو باطل ہے۔ اور امامیہ میں سے اس کے بدعتی ہم نواکہتے ہیں کہ آپ نے تو ایسی بات کہہ دی جو مطلوب پر صادر ہورہی ہے۔ یہی تو ہماراواضح عقیدہ ہے۔کیونکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ: وہ متحرک ہے۔ اور اس کے ساتھ حوادث اور اعراض قائم ہوتے ہیں ۔تو پھرہمارے اس عقیدہ کے بطلان پرکیا دلیل ہے ؟ منکرین کہتے ہیں : جس ذات کیساتھ حوادث قائم ہوں وہ اُن سے خالی نہیں ہوتا۔ اور جو بھی شے ایسی ہو جو حواث سے خالی نہ ہو تو وہ خود بھی حادث ہوتا ہے ۔تو اس کے بدعتی بھائی اس سے کہتے ہیں کہ جس ذات کے ساتھ حوادث قائم ہوں وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتا۔ یہ تو امامیہ اور معتزلہ کا قول نہیں ؛ یہ تو اشعریہ کا قول ہے۔ اور امام رازی اور آمدی اور ان کے علاوہ دیگر نے اس کے ضعف کا اعتراف کیا ہے اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ۔ اور تم اس بات کو ہمارے حق میں تسلیم کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اشیاء کو پیدا فرمایا؛ بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے اور بغیر کسی سببِ حادث کے کوئی حادث بھی موجود نہیں تھا۔ یعنی بغیر حادث کے حادثِ اول کو پیدا فرمایا۔ پس جب حوادث بغیر کسی اسبابِ حادثہ کے پیدا ہوئے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ ان کا قیام ہو بعد اس کے کہ وہ پہلے قائم نہیں تھے۔ اس قول کے امامیہ قائل ہیں ؛ اور کرامیہ میں سے بھی بعض کا اور کچھ دیگر حضرات کا بھی یہی قول ہے۔ وہ قدیم جسم کے اثبات کے قائل ہیں ۔ اوریہ کہ اللہ نے فعل کو صادر کیا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا۔ یا وہ متحرک ہوا بعد اس کے کہ وہ ساکن تھا۔ان امامیہ ،اور ان کے ہمنواؤوں معتزلہ اور کلابیہ کے لیے اس کا ابطال ممکن نہیں ۔ کیونکہ ان کے قول کی بنیاد تو اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کے امتناع پر ہے۔ ان کے برعکس یہ لوگ اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ پھر کلابیہ صفات کے انکار کی وجہ سے اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کی نفی نہیں کرتے۔بیشک وہ کہتے ہیں : صفاتِ قدیمہ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ؛ اور وہ نوع کے قدم کی نفی اس کے اعیان کے تجدد کی وجہ سے کرتے ہیں ۔جو دھیرے دھیرے وجو دمیں آتے ہیں ۔کیونکہ وہ حادث ہیں ۔ اس انکار میں ان کی اصل دلیل یہ ہے کہ جو شے ما قبل الحوادث ہووہ حوادث سے خالی نہیں ہوتی۔ اور یہ عقلاء کے نزدیک ایک باطل مقدمہ ہے اور اس کا اعتراف ان کے ماہرین میں سے بہت سو ں نے کیا ہے۔جیسے رازی اور آمدی وغیرہ۔ رہے ابو المعالی اور ان کے امثال؛ تو انہوں نے اس مطلوب پرکوئی حجت عقلیہ قائم نہیں