کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 562
اگر منکر صفات امامی کہے کہ: جسم حوادث سے خالی نہ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ وہ اکوان سے خالی نہیں ہوتا ؛ اور اکوان حادث ہوتے ہیں ۔کیونکہ وہ حرکت اورسکون سے خالی نہیں ہوتا؛ یہ دونوں حادث ہیں ۔ تو ان کو جواب یہ ہے کہ:’’ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ تمام اکوان حادث ہیں ؛بلکہ یہ جائز ہے کہ ایک ایسا جسمِ قدیم ازلی پایا جائے جو سکون کے ساتھ متصف ہو۔ اور پھر بعد میں اس میں حرکت پیدا ہو جائے ؛حالانکہ پہلے وہ متحرک نہیں تھا۔کیونکہ سکون دو حال سے خالی نہیں ،اگر وہ ایک عدمی شے ہے تو یہ ممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی امر وجود ی حادث ہو جائے ۔اگراس کو ایساوجود ی فرض کر لیا جائے کہ وہ کسی حادث کے ذریعے زائل ہو جائے۔ تو منکرین کہتے ہیں : قدیم تو زائل ہی نہیں ہوتا۔ تو ا س کے بھائی کہنے لگے: اگر قدیم بمعنی عدمی ہے تو باتفاق عقلاء اس کا زوال ممکن ہے۔کیونکہ کوئی بھی حادث ایسا نہیں جس کا عدم قدیم نہ ہو۔ اور سکون تو بہت سے لوگوں کے ہاں ایک امر عدمی ہے۔ اور ہم تو اس بات کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ ایک امر عدمی ہے؛ پس اس کا زوال جائز ہے۔ اور اگر وہ ایک وجودی شے ہے تو ہم اس امرکو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس کا زوال جائز اور ممکن نہیں ۔ ان کے ہمنوا مجسمہ کہتے ہیں : یہ مقام شیعہ ،معتزلہ ،اشعریہ تمام جماعتوں میں سے مخالفین کے خلاف حجت ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس بات میں ہماری موافقت اختیار کی ہے کہ باری تعالیٰ نے فعل صادر فرمایا؛ بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا۔ پس تمام حوادث کا بغیر کسی سبب ِ حادث کے حدوث کا امکان معلوم ہوا۔ اور وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ: یہ جائز بلکہ واجب ہے کہ سارے کے سارے حوادث بغیر کسی سبب حادث کے پیدا ہوں ۔کیونکہ ان کے نزدیک ایسے حوادث ممتنع ہیں ۔جن کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی ازلی ہوں ۔ اور یہ بھی جائز ہے تو ہم نے اس امرکو اختیار کر لیا ہے کہ سکون ایک عدمی شے ہے اورحادث ایک وجودی حرکت ۔ پس جب کسی جسم کا حدوث بغیر کسی سببِ حادث کے جائزہے تو حرکت کا بغیر کسی سببِ حادث کے پیدا کرنا بطریق اولیٰ ممکن ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ سکون ایک وجودی شے ہے۔ تو جب اعیان کا وجود بعد العدم ممکن ہے؛ حالانکہ وہ تو عدمِ فعل سے فعل کی طرف انتقال ہے خواہ اس کو تغیر و انتقال کہا جائے یا نہ کہا جائے؛ تو یہ جائز ہے کہ کوئی ساکن متحرک ہو اور سکون سے حرکت کی طرف منتقل ہو جائے۔ اگرچہ یہ دونوں وجودی چیز ہیں ۔ کسی قائل کا یہ کہنا کہ اس ذات کے قدم کا مقتضی (بالکسر)اس کے وجوب کے لوازم میں سے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: بسا اوقات ایک ذات کی بقا اس امر کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ اس کے زوال کے ساتھ اس کا ارادہ متعلق نہ ہوجس طرح کہ حوادث کے سبب میں ۔بے شک واجب عدمِ فعل سے فعل کی طرف منتقل ہو۔تو جو جواب ان کا اس بارے میں ہے وہی جواب ہمارا بھی ہے۔ اور اگر وہ دوامِ فاعلیت کا قائل ہے تو اس سے ان کا اور ہمارا عقیدہ دونوں باطل ہوئے ۔