کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 56
پہلو تہی : سے مراد گواہی کو بدلنا ہے۔اور اس سے منہ موڑنے سے مراد: گواہی کو چھپاناہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں سچ بولنے اور حق بیان کرنے کا حکم دیا ہے ؛ اور جھوٹ بولنے اور حق چھپانے سے منع کیا ہے؛ جن کی معرفت اور اظہار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((البیِعانِ بِالخِیارِ ما لم یتفرقا فِإن صدقا وبینا بورِک لہما فِی بیعِہِما وِإن کذبا وکتما محِقت برکۃ بیعِہِما)) [1] ’’ بیع کرنے والوں کو جدا ہونے تک اختیار ہے۔ پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور وضاحت کردیں تو ان کی بیع میں برکت دی جاتی ہے اور اگر انہوں نے جھوٹ بولا اور عیوب کو چھپایا تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ ٰٓیا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدۃ ۸) ’’اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جا ؤ؛کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ یہی وہ سب سے بڑی گواہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنایا ہے ‘ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ﴾(البقرہ ۱۴۳) ’’اور ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایاتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ جَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ﴾ (الحج ۷۸)
[1] البخاری کتاب البیوع؛ باب إذا بین البیعان و لم یکتما.... ۳؍۵۸۔ مسلم کتاب البیوع ؛ باب البیعان بالخیار ما لم یتفرقا ۳؍۱۱۶۴۔ والحدیث في سنن الترمذي و ابن ماجۃ و ابي داؤد و مسند أحمد ؛ و النسائی۔