کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 559
فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے۔‘‘
اس طرح یہ ارشاد بھی ہے:
﴿وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ﴾(بقرہ: ۲۱۳ )
’’، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا۔‘‘
جب لفظ ’’حکم ‘‘اس طرح قصص بیان کرنا اور لفظ افتاء کی نسبت قرآن کی طرف کی جائے جو کہ کلام اللہ ہے تو اللہ ہی فیصلہساز؛ فتویٰ دینے والے اور وہی بیان کرنے والے ہوتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اِن امور کو کئی مقامات پر خود اپنی ذات کی طرف منسوب فرمایا ہے۔
پس حضرت علی بن ابی طالب اور جعفر بن محمد اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی مراد یہی تھی۔ اور باقی امت کے اسلاف کی بھی یہی رائے ہے۔اب بغیر کسی شک کے پس یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ روافض آئمہ اہل بیت اور باقی اسلافِ امت کے ساتھ مسئلہ القرآن میں مخالف ہیں ۔ جس طرح کہ اور دیگر شرائع (مسائل )میں بھی انہوں نے مخالفت کی ہے ۔
رہا یہ قول کہ قرآن غیر مخلوق ہے یہاں مخلوق مجعول کے بارے میں ؛ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس بات کے ساتھ موصوف نہیں فرمایا کہ وہ مجعول[پیدا کردہ] ہے اور وہ عدم سے وجود میں لایا گیا ہے ؛کیونکہ اگر یہ معنی مراد ہوتا تو پھر وہ صرف ایک ہی مفعول کی طرف متعدی ہوتا؛ حالانکہ جہاں یہ استعمال ہوا ہے وہاں دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اِِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾( زخرف: ۳)
’’ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنایا، تاکہ تم سمجھو۔‘‘
پس اگر وہ اس کامعنی یہ کریں کہ وہ قرآن مجعول ہے تو یہ معنی حق ہے ۔رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ :
﴿مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ ﴾[الانبیاء۲]
’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو۔‘‘
تو یہ آیت اس بات پر دال ہے کہ ذکر دو قسم پر ہے :ایک حادث اور دوسرا غیر حادث۔جیسے آپ کہیں کہ : اگر میرے پاس کسی عادل اور دین دار آدمی کی شہادت آئی تو میں اس کی شہادت کو قبول کروں گا۔ اور نکرہ کی صفت تخصیص کے لیے ہے۔ اور ان کے نزدیک یہ سب کا سب حادث ہے۔اور قرآن میں حادث وہ نہیں جو ان کے کلام میں حادث ہے۔ پس انہوں نے قرآن کی موافقت نہیں کی۔ پھر اگر یہ کہا جائے کہ وہ حادث ہے تو اس سے