کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 557
قرآن کے بارے میں آئمہ اسلام کے عقائد: جب یہ بات زیادہ پھیل گئی تو انہوں نے ائمہ اسلام جیسے جعفر صادق اور ان کے امثال سے سوال کرنے لگے۔پس جعفر صادق رحمہ اللہ سے انہوں نے پوچھا کہ قرآن خالق ہے یا مخلوق؟ تو فرمایا : ’’ قرآن نہ خالق نہ مخلوق ہے بلکہ وہ اللہ کا کلام ہے۔‘‘ اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ امام جعفر رحمہ اللہ کا یہکہناکہ :’’قرآن نہ خالق ہے نہ مخلوق‘‘ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ نہ کاذب ہے نہ مکذوب؛ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے والاخالق نہیں ۔اور نہ ہی وہ مخلوق ہے؛ لیکن یہ تو اللہ کا کلام ہے۔ ایسے ہی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ آپ نے تو ایک مخلوق کو حکم بنا دیا؟ تو فرمایا :’’میں نے کسی مخلوق کو حکم نہیں بنایا؛ میں نے تو قرآن کو حکم بنایا ہے۔‘‘ ابن ابی حاتم نے ’’الرد علی الجہمیہ ‘‘[1]میں رد کیا ہے ؛ وہ لکھتے ہیں : حرب کرمانی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سند سے میری طرف یہ بات لکھی؛ آپ فرماتے ہیں :’’ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو شخصوں کو حکم بنایا تو خوارج نے کہا کہ: آپ نے تو دو آدمیوں کو حکم [فیصلہ ساز]بنایاہے ؟ تو انہوں نے فرمایا:’’ میں نے مخلوق کو حکم نہیں بنایا؛ میں نے تو قرآن کو حکم بنایا ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے جوعبد اللہ بن حسن سے مروی ہے کہ:’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکمین سے فرمایا : پوری طرح قرآن کا فیصلہ کرو؛ بیشک یہ سارا قرآن میرے لیے ہے۔‘‘[یعنی وہ پورے کا پورا میرے حق میں ہے]۔ اور حضرت عکرمہ سے مسنداًنقل کرتے ہوئے ابن ابی حاتم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ ایک جنازے میں حاضر تھے کہ ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یا رب القرآن ارحمہ۔‘‘ ’’ اے قرآن کے رب اس پر رحم فرما۔‘‘ توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ مہ‘‘’’رک جاؤ‘‘یعنی ایسا نہ کہیے۔ قرآن تو اللہ ہی کی ذات سے ہے اوراللہ کا کلام ہے اور وہ مربوب نہیں ہے۔وہ اللہ تعالیٰ ہی سے صادر ہوا ہے اور اس کی طرف لوٹے گا ۔ ایسے ہی اس میں ایک اور روایت عمروبن دینار سے یہ لکھی تھی کہ:’’ میں نے ستر سال سے یہ بات سنی ہے کہ ہمارے مشائخ یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ:’’ اسی کی ذات سے وہ صادر ہوا ہے اور اسی کی طرف لوٹے گا۔‘‘ اور اس روایت کو بہت سو نے سفیاہ ابن عیینہ عن عمر بن دینار نقل کیا ہے ۔اور امام بخاری رحمہ اللہ نے
[1] ابن ابی حاتم ؍الامام ؛ الحافظ ؛ شیخ الاسلام ابو محمد عبدالرحمن بن الحافظ الکبیر ابی حاتم محمد بن ادریس المنذر التمیمی ۲۴۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۲۷ھ میں وفات پائی۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں : ’’جہمیہ کے رد پر ان کی ایک بہت بڑی کتاب ہے’’ الرد علی الجہمیۃ‘‘ جو کہ آپ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔فوات الوفیات لابن شاکر ۱؍ ۵۴۲۔ العبر للذہبی ۲؍۲۰۸۔الاعلام للزرکلی ۴؍۹۹۔]