کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 556
بلکہ وہ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن کو مفتریٰ اور گھڑا ہوا وہی شخص کہے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جھوٹا کہے گا جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ ﴾(یونس :۳۸)
’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے؟ کہہ دے تو تم اس جیسی ایک سورت لے آؤ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ ﴾(ھود: ۱۳ )
’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ کہہ دے پھر اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْماً وَزُوراً ﴾(فرقان: ۴)
’’اورکفر کرنے والوں نے کہا: یہ نہیں ہے مگر ایک جھوٹ، جو اس نے گھڑ لیا اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اس کی مدد کی، سو بلاشبہ وہ ایک ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ إِنِ افْتَرَیْْتُہُ فَعَلَیَّ إِجْرَامِیْ وَأَنَاْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُجْرَمُونَ﴾ (ھود: ۳۵ )
’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے، کہہ دے اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو میرا جرم مجھی پر ہے اور میں اس سے بری ہوں جو تم جرم کرتے ہو۔‘‘
جن لوگوں نے قرآن کے بارے میں باہم اختلاف کیا ہے کہ کیا وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق ؟تو وہ سب کے سب اس بات کا اقرار کرنے والے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے قرآن کو پہنچانے والے ہیں ۔ اور اس نے اس کو ہر گز اپنی طرف سے نہیں گھڑا لیکن معتزلہ اور جہمیہ کی چونکہ بنیاد اس بات پر ہے کہ رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ صفات اور افعال اور خاص طور پر کلام نہیں قائم ہو سکتے تو ان کے ذمے یہ بات لازم ہوئی کہ وہ اس کے قائل ہو جائیں کہ اللہ تعالی کا کلام اس کی ذات سے جدا ہے اور مخلوق ہے یعنی من جملہ اس کے مخلوقات کے ہے اور ان میں سے سب سے پہلے جو شخص اس کلام اور اس قول کے ساتھ ظاہر ہوا وہ جعد بن درہم پھر جہم بن صفوان ہوا اور پھر اس کے بعد سب معتزلہ نے اس کو اختیار کر لیا ۔