کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 555
موافقت کی کہ قرآن کلام حادث اور اللہ کی ذات سے جدا ہے ۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے پہلے کلام کرنا ممکن نہیں تھا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ متکلم بنے؛ بعد اس کے کہ وہ پہلے متکلم نہیں تھے۔ اورا للہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا کلام ثابت نہیں ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ بلکہ اس کا کلام تو اس کے ان من جملہ مصنوعات کے ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔ پھر انہوں نے اہلِ بیت کے اسلاف جیسے کہ امام جعفرِ صادق رحمہ اللہ وغیرہ سے یہ بات سنی ہے؛ وہ کہا کرتے تھے کہ:قرآن تو غیر مخلوق ہے۔‘‘ تو وہ ان کی متابعت میں کہنے لگے: ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ مخلوق ہے؛ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک حادث کلام ہے اور یہ مجعول ہے یعنی اسے تیار کیا گیا ہے۔وہ اپنے تئیں قرآن کے اس لفظ کی موافقت کرتے ہیں جس میں ارشادہے : ﴿اِِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾( زخرف: ۳) ’’ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنایا، تاکہ تم سمجھو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ ﴾[الانبیاء۲] ’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو۔‘‘ اور بہت سے لوگ جو روافض کے علاوہ ہیں وہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔ اور ان کا مقصود اس جملے میں نفی سے یہ ہے کہ وہ مکتوب اور مفترا یعنی گھڑا ہوا نہیں ہے۔بیشک عربی زبان میں کہا جاتا ہے: خلق ہٰذا واختلقہٗ یعنی جب اس نے اس کو اپنی طرف سے گھڑلیا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ابراہیم علیہ السلام سے حکایتاً ارشاد ہے: ﴿اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ﴾( عنکبوت: ۱۷) ’’تم اللہ کے سوا چند بتوں ہی کی تو عبادت کرتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑ تے ہو۔‘‘ اور قوم ہود علیہ السلام سے حکایت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِِنْ ہٰذَا اِِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ (137) وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ﴾(شعرآء :۱۳۷،۱۳۸) ’’ نہیں ہے یہ مگر پہلے لوگوں کی عادت۔اور ہم قطعاً عذاب دیے جانے والے نہیں ۔‘‘ پس ان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر وہ شخص جو ان آثار میں غور کرے جو سلف سے منقول ہیں اور جو امت میں قرآن کی مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کے بارے میں نزاع واقع ہے تو وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ ان کانزاع اس بات میں نہیں تھا کہ یہ اپنی طرف سے گھڑا ہوا ہے یا گھڑا ہوا نہیں ہے اس لیے کہ جو شخص بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں وہ کبھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا کہ قرآن مفتریٰ اور گھڑا ہوا (خود ساختہ )ہے