کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 551
۲) دوسرا فرقہ: ابو مالک حضرمی اور علی بن میثم اور ان کے متبعین کا ہے ،ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کی ذات کے مغایر ہے اور وہ اللہ کی حرکت ہے جس طرح کہ ہشام نے کہا لیکن یہ لوگ اس کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ارادہ خود ہی ایک حرکت ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا غیر ہے اور اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ متحرک ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق حرکت صرف یہی ہے ۔ ۳) تیسرا فرقہ :جو کہ اعتزال اور عقیدہ امامت کے قائل ہیں ؛ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ حرکت نہیں پس ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ کا ارادہ مراد کے غیر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی وجہ سے یہ مخلوق ہے نہ کہ اس کے ارادے سے یعنی یہ اللہ کی ذات کے ساتھ لگا ہوا ہے اور بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کسی شے کا ارادہ کرنا ہی خود وہ شے ہے(یعنی چیز کا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اس کے وجود کا ارادہ کرنا ہی عبارت ہے اس چیز کے وجود سے) اور بندوں کے افعال کاارادہ اللہ تعالیٰ کا ان کو اس فعل کا امر دینے سے عبارت ہے اور ظاہر ہے کہ وہ امر ان کے فعل کا غیر ہے اور وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے معاصی کا ارادہ کیا تو اس کے ارادے سے وہ وجود میں آئے ۔ ۴) چوتھا فرقہ : ان کا عقیدہ ہے کہ ہم فعل کے وجود میں آنے سے پہلے یہ نہیں کہتے کہ اللہ نے ارادہ کیا ۔اور جب طاعت وجود میں آجاتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کا ارادہ کیا۔ اور جب کوئی معصیت وجود میں آجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اور اس سے خوش نہیں ہوتے۔ میں تو کہتا ہوں کہ قولِ ثالث تو متأخرینِ روافض کا قول ہے جیسے کہ مفید اور اس کے وہ اتباع۔ جنہوں نے معتزلہ کی اتباع کی ہے اور وہ اس کتاب کے صاحب کا ایک گروہ ہے اور قول اول تو معتزلہ میں سے بصرئین کا قول ہے اور دوسرا بغدادیین کا قول ہے پس یہ شیعہ معتزلہ کے قول کو اختیار کرنے والے ہوئے ۔ الحاصل یہ وہ مقالات ہیں جو تشبیہ وتجسیم کے بارے میں نقل کئے گئے ہیں اور قدمائے روافض کی بہ نسبت ہمیں کوئی اور ایسا شخص نہیں معلوم جس نے مسلمانوں کے طوائف سے یہ غلط عقائد اس طرح نقل کئے ہوں جیسے کہ اس نے نقل کئے ہیں ۔ اور روافض اس باب میں راہ حق سے محروم کر دیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ امورمیں ان کے قدماء تو اُس تجسیم کے قائل ہیں جو غالی مجسمہ کا قول ہے اور ان کے متاخرین تو معتزلہ میں سے غالی معطلہ کی موافقت میں اللہ تعالیٰ کی صفات میں تعطیل کے قائل ہیں ۔ان کے آئمہ کے اقوال تعطیل اور تمثیل کے درمیان دائر ہیں ۔ ان میں کوئی ایسا قول کسی کا نہیں ملتا جو ان دونوں راستوں کے درمیان اعتدال کا راستہ ہو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے جو آئمہ مسلمین ہیں صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ایک متوسط قول پر متفق ہیں جو کہ تمثیل اور تعطیل دونوں قولوں کے مغایر ہے۔ اور یہ ایسی بات ہے جو اصول دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے أئمہ اہل بیت کے ساتھ روافض کے اختلاف کو واضح کرتی ہے۔ جیسے کہ یہ لوگ أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں