کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 550
۷) اور روافض کا ساتواں فرقہ یہ گمان نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ فی نفسہ عالم ہیں جس طرح کہ ’’شیطانِ طاق ‘‘نے کہا ہے ۔لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس وقت تک نہیں جانتے جب تک کہ اس میں اثر نہ کرلیں اور ان کے نزدیک تاثیر ارادے سے عبارت ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں آجاتا ہے اور جب تک اس کا ارادہ نہیں کرتے اس وقت تک علم میں نہیں ہوتا اور ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس سے عبارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی حرکت وجود میں آتی ہے جو ارادہ کہلاتی ہے پس جب وہ متحرک ہوتے ہیں تو کسی چیز کو جان لیتے ہیں ورنہ تو اللہ تعالیٰ کو قبل التحرک عالم ہونے کے ساتھ موصوف کرنا جائز نہیں ۔
۸) اور روافض کے آٹھویں فرقے نے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عالم ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ فعل ثابت کرتے ہیں اگر ان سے الزاما یہ کہا جائے کہ کیا تم یہ کہتے ہوکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ازل سے عالم ہیں ۔ تو وہ اختلاف کرتے ہیں ،بعض تو کہتے ہیں کہ ازل سے عالم بنفسہ نہیں تھے یہاں تک کہ اس نے علم کا فعل صادر کیا اس لیے کہ بتحقیق اللہ تعالیٰ پہلے سے موجود تھے لیکن ابھی تک کوئی فعل نہیں کیا تھا اور اس حال میں ایک زمانہ بھی گزرا اور بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ازل سے عالم بنفسہ ہیں اگر ان سے یہ کہا جائے کہ پھر وہ ازل سے فاعل ہیں تو پھر جواب میں کہتے ہیں کہ ہاں لیکن ہم فعل کے قدم کے قائل نہیں ہیں اور فرمایا کہ روافض میں سے بعض وہ بھی ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان امور کو بھی جانتے ہیں جو ’’کون ‘‘(وجود )سے پہلے وجود میں آئے تھے سوائے بندوں کے عباد کے ،اس لیے کہ ان کو تو صرف اللہ تعالیٰ ان کے ’’کون ‘‘اور ان کے وجود کی حالت میں جانتے ہیں ۔
۹) اور روافض کے نوویں فرقہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے عالم، حی اور قادر ہیں اور وہ تشبیہ کی نفی کی طرف مائل ہیں اور وہ علم کے حدوث کا اقرار نہیں کرتے اور نہ ان امور کا جو ہم نے ذکرکردہ فرق سے نقل کئے یعنی تجسیم اور تشبیہ وغیرہ ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ارادے میں رافضی اختلاف
روافض کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ارادہ میں بھی اختلاف ہے۔ اس میں ان کے چار فرقے ہیں :
۱) پہلا فرقہ جو ہشام بن حکم اور ہشام جوالیقی کے اصحاب ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ایک حرکت (سے عبارت)ہے اور وہ نہ اس کی ذات کا عین ہے اور نہ غیر ہے اور یہ کہ بے شک وہ ارادہ اللہ کی ایک صفت ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ متحرک ہو جاتے ہیں اور جب حرکت وجود میں آتا ہے تو وہ شے عدم سے وجود میں آجاتا ہے یعنی جس کا ارادہ کیا ہے ۔