کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 549
چیز کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر اللہ کی یہ رائے بدل کر دوسری رائے ہو جاتی ہے ۔ ۴) روافض میں سے فرقہ رابعہ کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل میں زندہ نہ تھے (العیاذ باللہ )تھے پھر حی بنے ۔ ۵) روافض میں سے فرقہ خامسہ جو کہ ’’شیطان الطاق ‘‘[1]کے اصحاب ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فی نفسہ عالم ہیں ،جاہل نہیں لیکن وہ اشیاء کا تب علم رکھتے ہیں جب کہ وہ ان کا اندازہ اور تقدیر (صورت اور مادے کو ایک خاص ترکیب اور خاص شکل کے ساتھ وجود دینا)کریں اور ان کا ارادہ کریں ،رہا ان کا اندازہ کرنے اور ان کے ارادے سے پہلے تو یہ بات محال ہے کہ وہ ان کو جان لیں اور ان کا علم اسے حاصل ہو ، اس وجہ سے نہیں کہ اللہ عالم نہیں لیکن کوئی چیز اس وقت تک شی موجود نہیں بن سکتی جب تک کہ کوئی مقدِّر اس کی تقدیر نہ کرے اور اس کو تقدیر اور اندازے کے ذریعے چیز (من الأشیاء )بنائے اور تقدیر یعنی صورت اور مادے کو ایک خاص ترکیب اور خاص شکل کے ساتھ وجود دینا ان کے نزدیک ارادہ سے عبارت ہے ۔ ۶) فرقہ سادسہ روافض میں سے ہشام بن حکم کے اصحاب ہیں ۔ ان کے عقیدہ میں یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اشیاء پر عالم بنفسہ ہیں ۔ اور یہ بھی محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اشیاء کا علم رکھتے تھے؛ بعد اس کے کہ وہ اس پر عالم نہیں تھے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک اپنے خاص علم سے جانتے ہیں ۔ اور یہ کہ علم اللہ کے لیے کوئی صفت ہے ۔اور وہ صفت نہ تو عینِ ذات ہے نہ غیرِ ذات ہے اور نہ ذات کا بعض ہے پس یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ علم حادث ہے اور قدیم کیونکہ قدیم ایک صفت ہے اور صفت موصوف نہیں بن سکتی اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اللہ تعالی ازل سے عالم ہوں تو پھر معلومات بھی ازلی ہونگے اس لیے کہ کسی ایسے ذات کا پایا جانا صحیح نہیں ہے جو بغیر کسی معلوم کے عالم ہوں ،ہاں کوئی بھی عالم ہوگا تو کوئی اس کیلئے کوئی معلومِ موجود بھی ہوگا ۔[مقالات الاسلامیین ۱؍ ۱۰۸۔] اس نے یہ کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان امور پر عالم ہیں جو اس کے بندے مستقبل میں کریں گے تو پھر تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر محنت اور ان کو آزمائش میں مبتلا کرنا بھی صحیح نہ ہوا اور ہشام نے اللہ تعالیٰ کی باقی صفات جیسے قدر ت ،حیات،سمع ،بصرا ور ارادہ کے بارے میں بھی یہ کہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں لیکن یہ نہ عینِ ذات ہیں نہ غیرِ ذات ہیں اور بتحقیق قدرت اور حیات کے بارے میں اس سے مختلف عبارتیں منقول ہیں ،اُن میں سے بعض وہ ہیں جو اس سے یہ قول نقل کرتے ہیں کہ وہ یہ کہتا تھا کہ باری تعالیٰ ازل سے قادر اور حی نہیں ،بعض وہ ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کا قائل نہیں تھا ۔
[1] ابو جعفر بن علی بن نعمان بن ابی طریفہ البجلی ؛ الکوفی؛ الاحول۔ یہ شیطان الطاق کے لقب سے معروف ہے۔اسے شیعہ مؤمن الطاق کہتے ہیں ۔ نجاشی نے اسے ابو عبداللہ جعفر الصادق کا راوی قرار دیا ہے۔ اس کی دکان کوفہ کی ایک گلی میں تھی۔ دیکھو: الرجال أز نجاشی ۴۹۔ فہرست از طوسی ۱۵۸۔ فرق ِ شیعہ از نو بختی ص ۱۰۰۔ الخطط از مقریزی ۲؍ ۳۴۸۔ معالم العلماء ۵۔