کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 546
ہوسکتا ہے یا وہ چیز جو جسم کے ساتھ قائم ہو۔ یہ جس مذہب کا اس امامی شیعہ نے ذکر کیا ہے؛ مگر اس نے اس مسئلہ میں تفصیل سے بات نہیں کی۔ اسی لیے ہم نے بھی اسی قدر گفتگو پر انحصار کیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کلام دوسری جگہ پر پوری تفصیل کے ساتھ موجود اور محفوظ ہے۔ صفات کو ثابت ماننے والے معتزلہ سے کہتے ہیں : تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ حیی ہیں ؛ علیم و قدیر ہیں ۔ پس یہ صفات بھی کسی جسم کی ہی ہوسکتی ہیں ۔اور تمہارے اس قول کی بنا پر لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم ہوں ۔ اور اگر تم یہ کہو کہ : یہ نام ان چیزوں کے بھی رکھے جاسکتے ہیں جو خود جسم نہ ہوں ۔ تو تم سے کہا جائے گا کہ تم نے خود ہی ثابت کردیا کہ یہ صفات ان کی ہیں جو جسم نہیں ہے۔ اور ان سے یہ بھی کہیں گے کہ :اثبات صفات کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر زندگی کے حیی ہے؛ بغیر علم کے عالم اور بغیر قدرت کے قادر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے: وہ کالا ہے؛ اس میں کالا رنگ نہیں ہے؛ سفید ہے؛ مگر اس میں سفیدی نام کی کوئی چیز نہیں ۔ قائم توہے مگر بغیر کسی وجود کے؛ اور نمازپڑھ رہا ہے ؛مگر نماز نہیں ہے۔ اوربغیر کلام کے متکلم ہے۔بغیر فعل کے فاعل ہے ۔اس عقیدہ کا فاسد ہونا لغت اور عقل کے اعتبار سے معلوم شدہ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ : آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حیی ؛عالم اور قادر ہیں ۔ اور حیی ہونا ایک علیحدہ چیز ہے؛ جب کہ عالم ہونا ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ اورعالم ہونا ایسے نہیں ہے جیسا کہ اس کا قادر ہونا ہے۔ یہ معانی جن کو آپ سمجھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں ؛ یہ تو صفات ہیں ۔ بھلے آپ ان کا نام احکام رکھ دو یا احوال یا معانی ؛ یا ان کے علاوہ کوئی نام دیدو۔ اعتبار الفاظ کا نہیں ہوتا بلکہ سمجھے جانے والے معانی کا ہوتا ہے۔ جو کوئی ائمہ معتزلہ و شیعہ اور فلاسفہ اور صفات کے منکرین کے کلام پر غور وفکر کرتا ہے؛ تو وہ دیکھتا ہے کہ ان لوگوں کے ہاں تناقض کی انتہا ہے۔جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ: عاقل ؛ معقول اور عقل۔ عاشق معشوق اور عشق۔ پھر کہتے ہیں : یہ معنی بھی یہ معنی ہے۔اوریہ کہ عالم ہی علم ہوتا ہے۔ وہ ایک صفت کو دوسری بنا دیتے ہیں ۔ اور موصوف کو صفت بنا دیتے ہیں ۔ پس جس چیز کی وجہ سے یہ لوگ اہل سنت و الجماعت پر طعن و تشنیع کرتے ہیں وہ ان کے اختیار کے بغیر ہوتی ہے۔ جو کوئی ابو الحسین البصری اور دوسرے ائمہ اعتزال کے کلام پر غور کرے گا تو وہ دیکھے گا جن معانی کو وہ ثابت کرتے ہیں وہ تو صفات اقوال ہیں ۔ لیکن یہ مقام ان چیزوں کی تفاصیل بیان کرنے کا نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں پر اس مقام کی مناسبت سے مختصر کلام پیش کرنا مقصود ہے ۔اور یقیناً ہم اس سے پہلے بھی اس بات سے آگاہ کر چکے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت مطلق طور پر حق بات کہتے ہیں ۔ اور کوئی قول ایسا نہیں ہے جسے شریعت یا عقل ثابت کرتی ہو؛ مگر ائمہ اہل سنت والجماعت اس کے قائل رہے ہیں ۔ یہاں پر مقصود اتنا ہی بیان کرنا ہے۔