کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 545
الابانہ میں لکھا ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید و اتباع کرتے ہیں ۔ [الابانہ ص ۷۰]
ان کے متعلق فرمایا ہے : ’’ آپ امام کامل؛ رئیس ِفاضل ؛اوروہ ہستی ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کیا؛ اور منہج کو روشن کیا۔ اور اہل بدعت کی بدعات؛ منحرف لوگوں کے انحراف اور شک کرنے والوں کے شکوک و شبہات کا قلع قمع فرمایا۔‘‘
یہ بھی فرمایا ہے کہ : اگر کوئی یہ کہے کہ: آپ لوگوں نے جہمیہ ؛ معتزلہ؛قدریہ[مرجئہ] کے عقیدہ کا انکار کیا ہے ؛ اور اس ضمن میں ان مقدمات سے استدلال کیا ہے؛ جنہیں معتزلہ اس جیسے کلام میں تسلیم کرتے ہیں ۔ پس معتزلہ اور ان کی موافقت رکھنے والے اہل کلام یہ کہتے ہیں : آپ کا قول اس باب میں متناقض ہے۔‘‘
یہی حال تمام اہل سنت اور محدثین کا ہے؛ وہ کہتے ہیں :بیشک یہ تناقض ہے۔اور آپ کے ہاں یہ تناقض معتزلہ کے باقی رہ جانے والے کلام میں سے ہے۔
اس کی اصل یہی کلام ہے۔ یہ بات بہت سارے اصحاب أحمد و شافعی و مالک رحمہم اللہ کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ اور ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو کئی ایک مسائل میں اشعری کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اور اشعری نے اس اصول میں ان کی موافقت کی ہے جس اصول کی طرف ان مسائل میں رجوع کیا جاتا ہے۔ پس لوگ اس اصول کے تناقض میں بھی ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے اشعری کے تناقض کی بابت کہتے ہیں : اور جیسے معتزلہ اور فلاسفہ کے تناقض میں بھی کہتے ہیں ۔ پس کوئی بھی گروہ ایسا نہیں ہے جس میں کچھ معمولی سی بھی سنت محضہ اور حدیث کی مخالفت پائی جاتی ہو؛ تو اسی اعتبار سے ان کے کلام میں تناقض کا پایا جانا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ اورجس گروہ میں جتنا زیادہ تناقض ہوگا؛ وہ سنت سے اتنا ہی دور ہوگا۔جیسا کہ معتزلہ ؛ فلاسفہ اور روافض۔ پس جب ان لوگوں نے یہ عقیدہ بنالیا کہ انہوں نے اس دلیل سے حدوث جسم کو ثابت کیا ہے؛ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات سے اس کا انتفاء لازم آگیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قدیم ہیں کوئی نئی پیدا ہونے والی مخلوق نہیں ۔ پس معتزلہ کہتے ہیں : جس چیز کے صفات قائم ہوتی ہوں ؛ وہ جسم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ صفات اعراض ہوتی ہیں ۔ اورعرض جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ پس اس بنیاد پر انہوں نے صفات کی نفی کردی۔ اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ افعال اختیاریہ کے قیام کی بھی نفی کردی۔ اس لیے کہ یہ بھی اعراض بھی ہیں اور حوادث بھی ہیں ۔ پس معتزلہ نے یہ عقیدہ بنالیا کہ : قرآن مخلوق ہے۔ اس لیے کہ قرآن کلام ہے؛ اور کلام عرض ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کلام کو حرکت کی ضرورت ہوتی ہے؛ اور حرکت حادث ہے؛ جو کہ کسی جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔
پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ : اللہ تعالیٰ کو آخرت میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس لیے کہ آنکھ صرف اس چیز کو دیکھ سکتی ہے جو یا تو خود جسم ہو یا پھر جسم کے ساتھ قائم ہو۔
یہ بھی کہا کہ : اللہ تعالیٰ عالم کے اوپر[فوق العالم]نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مقام ایک جگہ ہے۔ اور جگہ پر جسم ہی