کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 539
ہے یا مادہ اور صورت سے؛ اور اللہ کی ذات کے حق میں یہ ممتنع ہے ۔ جواب :.... بیشک جمہور عقلاء تو یہ نہیں کہتے کہ یہ نظر آنے والے اجسام جیسے کہ آسمان اور ستارے؛یہ جواہر مفردہ سے مرکب ہیں ؛ اور نہ مادہ اور صورت سے۔ پس ان پر یہ الزام کیسے آسکتا ہے کہ رب العالمین کے حق میں اس ترکیب کا التزام کا عقیدہ رکھیں ۔ دیگرمواقع پروضاحت کے ساتھ ددنوں جماعتوں کے دلائل اور مذکورہ بالا دونوں معانی کے اعتبار سے ان کے نفیِ صفات کے دلائل کا فساد بیان کیا گیا ہے۔ اور بے شک ایک گروہ اپنے ان موافقین کے دلائل کو باطل ٹھہراتے ہیں ۔ اور دوسراگروہ اس پہلے کے دلائل کو باطل قراردیتا ہے۔ پس یہ نفی صفات کے بارے میں کسی ایک حجت کی صحت پر بھی متفق نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ ایک گروہ اس امرسے استدلال کرتا ہے کہ مرکب ذات تو اجزاء کی طرف محتاج ہوتا ہے؛ تو دوسرا گروہ اس حجت کو باطل قرار دیتا ہے۔وہ کہتے ہیں : جو ذات بھی ایسی ہو؛ تووہ اعراض ِ حادثہ سے خالی نہیں ہوتی۔ اور جو چیز بھی حوادث سے خالی نہ ہو تو وہ حادث ہوتی ہے۔ اور پہلا گروہ ان لوگوں کی حجت کو باطل قراردیتا ہے۔ بلکہ اِن دونوں مقدمات سے انکار کرتے ہیں ۔ یہ اموراس کے علاوہ ایک اور مقام پرتفصیل سے بیان کر چکے ہیں اور ہم نے تو اس باب میں یہاں اس پر اجمالاً تنبیہ کر دی ہے ۔ اس اصل جس کا اعتقاد رکھنا مسلمانوں پر واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوچیزثابت ہے اسی پر ایمان لانا واجب ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خبر کی تصدیق اور حکام کی اطاعت کی جائے گی۔ اور جوچیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تو اس میں نفی اور اثبات کا کوئی حکم لگانا واجب نہیں ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد واضح ہو جائے اور اس کے نفی اور اور اثبات کی صحت معلوم ہو جائے ۔ رہے وہ الفاظ جو مجمل ہیں تو ان میں بغیر کسی تفصیل کے نفیاً اور اثباتاً کلام کرنا جہالت اور گمراہی میں پڑ نے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی یہ فتن اورعبث قیل وقال میں پڑنے کاسبب ہے۔ اور در حقیقت کہا گیا ہے کہ عقلاء کے اکثراختلافات تو اسماء میں اشتراک کی وجہ سے ہیں ۔ اور دونوں گروہوں میں سے ہر ایک یعنی جسم کے منکرین اور اس مثبتین؛ روافض میں موجود ہیں ۔ اور اُن اہل سنت میں بھی جو روافض کے مد مقابل ہیں ۔میری مراد وہ لوگ ہیں جو خلفائے ثلاثہ کی امامت کے قائل ہیں اور شیعوں کے متکلمین میں سب سے پہلے جو ’’جسم‘‘ کا اطلاق ظاہر ہوا وہ ہشام بن حکم ہے، ایسے ہی ابن حزم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ ٭٭٭