کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 538
پس جوکوئی بھی صرف اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا ہے؛ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ثابت کی ہیں ؛وہ یہی خیال کرتا ہے کہ ان صفات کے اثبات سے تجسیم لازم آتی ہے؛ جو اللہ اور اس کے رسول نے ثابت کی ہیں ۔تمام منکرین صفات کے دلائل کی منتہیٰ ایک وجودِ مطلق اور صفات سے عاری ذات کے اثبات پر ہے ۔ اور عقلِ صریح بدیہی طور پر جانتی ہے کہ وجودِ مطلق اور صفات سے عاری ذات صرف ذہنوں میں فرض کی جا سکتی ہے؛ نہ کہ اعیان میں اس کا کوئی وجود ہے۔ پس ذہن اس چیز کو مجرد کرتا ہے اور اس توحید کو فرض کرتا ہے جس کو یہ فرض کر سکتے ہیں جیسے انسان مطلق اور حیوان ِمطلق کو ذہن فرض کر سکتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جس کو اذہان فرض کرتے ہیں اس کا خارج میں بھی وجود اور کسی مکان کے اندر متمکن ہوتاہے۔ یہیں سے تو ان لوگوں کی غلطی ظاہر ہو گئی جنہوں نے تقدیرِ عقلی (عقل کا کسی امر کو فرض کرنا )کے ذریعے اس امر کے امکان کوثابت کرنا چاہتے ہین۔ جس طرح امام رازی نے ذکر کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ عقل جانتی ہے کہ کوئی چیز یا تو متحیِّز(کسی مکان میں متمکن ) ہوگی؛ یا وہ قائم بالمتحیِّزہوگا ۔یا پھر نہ خود متحیِّزہوگا اور نہ کسی مکان میں حلول کرنے والا (یعنی نہ کسی متحیِّزکے ساتھ قائم ہوگا )۔[اساس التقدیس فی علم الکلام ؛ از رازی ؛ ص ۶] پس اسے کہا جائے گا کہ عقل کا ان اقسام کو فرض کرنا خارج میں ان کے وجود کا تقاضہ نہیں کرتا اور نہ خارج میں اس کے وجود کے امکان کو چاہتا ہے؛ کیونکہ اس کی مثال تو دی جاسکتی ہے کہ کوئی چیز تین احوال سے خالی نہیں : ۱۔یا تو واجب ہوگی ۲۔یا ممکن ہوگی ۳۔یا نہ واجب ہوگی اور نہ ممکن ہوگی ۔ یہ کہ کوئی چیز یاتو قدیم ہوگی یا حادث ہوگی؛ یاپھر نہ قدیم ہوگی اور نہ حادث ۔یا یہ کہ کوئی چیزیا توقائم بنفسہ ہوگی یا قائم بالغیر ہوگی ؛یا نہ تو قائم بنفسہ ہو گی اورنہ قائم بالغیر ۔یا یوں کہاجائے کہ یا تو کوئی چیز موجود ہوگی یا معدوم یا نہ موجود ہوگی اور نہ معدوم۔ پس بے شک اِن جیسی فرضیات اور تقسیمات کسی چیز کے امکان اور خارج کے اندر اُس کے وجود کو نہیں ثابت کر سکتیں ۔ بلکہ کسی چیز کا امکان اس کے وجود ؛یا اس کی نظیر کے وجود سے معلوم ہوتا ہے۔یا ایسی چیز کے وجود سے معلوم ہوتا ہے جس کی بہ نسبت یہ چیز وجود کے ساتھ زیادہ اولیٰ اوراحق ہے یا اس جیسے اور طرق بھی ہیں ۔ ان جیسے طرق سے امکانِ خارجی کوثابت کیا جا سکتا ہے ۔جبکہ امکانِ ذہنی تووہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا امتناع معلوم نہ ہو یعنی جب کوئی چیز ممتنع نہ ہو تو بس اس کا ذہنی امکان پیدا ہو جاتا ہے لیکن علم بالامتناع یہ علم بالامکان تو نہیں ہوتا ۔ اگر منکر صفات یہ کہیں کہ وہ تمام صفات جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ متصف ہیں یعنی یہ کہ وہ حی ہیں ،علیم ہیں ،قدیر ہیں ،اس کا دیکھا جانا ممکن ہے ،یا یہ کہ وہ عالم سے بالا اور اس پر محیط ہیں یا ان جیسے اور معانی جو کتاب و سنت میں اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہیں تو ان امور سے تو صرف وہی چیز متصف ہوتا ہے جو جواہرِ فردہ سے مرکب ہوتا