کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 537
اور ان علاوہ ان لوگوں سے منقول ہے؛جو اس لفظ کا اطلاق کرتے ہیں ۔کہ بیشک وہ صفات سے موصوف ہے۔ یا یہ کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا جائے سکے گا؛ یا اس کی رؤیت ممکن ہے ؛یا وہ عالم سے مبائن اور الگ ہے یا وہ عالم پر محیط ہے؛ یا اس جیسے وہ معانی؛جو شریعت اور عقل سے ثابت ہیں ۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ:’’ یہ معانی فی الجملہ صحیح تو ہیں لیکن اس لفظ کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر شریعت میں ایک بدعت ہے؛ اور لغت کے بھی مخالف ہے۔ کیونکہ جب کسی لفظ کے معانی میں حق اور باطل دونوں کا احتمال ہو تو اسکا اطلاق کرنا درست نہیں ۔ بلکہ واجب یہ ہوتا ہے کہ وہ لفظ حق کے اثبات میں اور باطل کی نفی کرنے والا ہو۔ یعنی وہ لفظ اپنے معنی میں محکم ہو اور یہ تو بہت سے باطل معانی کو بھی شامل ہے۔
اور جب کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ جسم نہیں ہے۔
تو اس سے پوچھا جائے گا : کیا تمہاری مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی غیر نے ترکیب نہیں دیا ؟یا اس کے اجزاء متفرق نہیں تھے؛جن کو بعد میں ملایا گیا ہو ؟یا اللہ تعالیٰ تفریق اور جزء بندی کو قبول نہیں کرتے؟ جس طرح کہ محسوسات میں جسم کا بعض بعض سے جدا ہو جاتا ہے ؟یا یہ کہ اللہ تعالیٰ جواہر فردہ سے مرکب نہیں ہے ؟یا یہ کہ نہ تو مادہ اور صورت سے مرکب ہے ؟اور اس جیسے اور معنی کا بھی نفی مراد ہے تمہاری ؟
[ظاہر ہے کہ وہ ان میں سے کسی کے بارے میں تو جواب دے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ یہ نفی بھی حق اور باطل دونوں معانی کے نفی کو شامل ہے لہٰذا فسادِ معنی کی وجہ سے تیرا یہ نفی کرنا بھی شریعت میں بدعت ہے ]۔
منکرین صفات کے ساتھ ایک اجمالی مناقشہ:
یا تیری مراد ایسی چیز ہے جس کا صفات سے موصوف ہونے کی نفی کو مستلزم ہو؛ اس طرح کہ اس کو نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی ایسے کلام کے ساتھ متکلم ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اور نہ وہ اپنی مخلوق سے مبائن اور جدا ہے۔نہ اس کی طرف کوئی چیز اوپرجاتی ہے؛ اور نہ اس کی طرف سے کوئی چیز نیچے آتی ہے؛ اور نہ اس کی طرف ملائکہ اور رسل اوپر جاتے ہیں اور نہ اس کی طرف دعا میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ؛ اور نہ وہ کسی چیز پر حاوی اور عالی ہے اور نہ اس سے کوئی چیز قریب ہو سکتی ہے ؛اور نہ وہ عالم کے اندر داخل ، خارج اور نہ مبائن ہے اور اس جیسے وہ معانی سلبیہ جن کے بارے میں سوائے معدوم کے اور کسی چیز کا اتصاف معقول نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صفت کے منکرین اس کا اثبات کرنے والے کو مجسم کہتے ہیں ۔
پس غالی منکرین صفات جوکہ جہمیہ اور باطنیہ میں سے ہیں ؛ وہ اسمائے حسنی کے مثبتین کو کہتے ہیں کہ وہ مجسَّم ہیں ۔ اورصفات کے بغیر اسماء کے مثبتین ؛جیسے معتزلہ اور ان کے ہمنوا صفات کے مثبتینِ کو مجسِّم کہتے ہیں ۔ اور جو لوگ صفات کے مثبت ہیں اور وہ اُن افعال اختیاریہ کو ثابت نہیں مانتے جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں وہ ان کے (صفات اور افعال اختیاریہ )مثبتین سے کہتے ہیں کہ وہ مجسم ہیں ۔یہی حال باقی منکرین صفات کا بھی ہے۔