کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 536
کرتے۔ جیسا کہ بہت سے اہل کلام کا قول ہے۔ یا وہ مادہ اور صورت سے مرکب ہے ؛جیسا کہ بہت سے فلاسفہ کی رائے ہے۔ یا پھر ان میں سے کسی ایک سے بھی مرکب نہیں ؛ جیسا کہ بہت سی جماعتوں کی رائے ہے۔ پس ان تین اقوال میں سے یہ تیسرا قول زیادہ صحیح ہے۔ تینوں اقوال کے حاملین کا آپس میں اختلافہے ؛ کہ کیا وہ غیر متناہی حد تک تقسیم کو قبول کرتا ہے ؟صحیح یہ ہے کہ وہ غیر متناہی حد تک تقسیم کو قبول نہیں کرتا۔ لیکن جوہرِ فرد کے مثبتین کہتے ہیں کہ: وہ تقسیم ایک ایسی حد پر ختم ہو جاتی ہے کہ اس کے وجودکے باوجود وہ تقسیم کو قبول نہیں کرتی۔ حالانکہ حقیقتِ حال اس طرح نہیں ؛ بلکہ جب اجزاء بہت چھوٹے ہو جائیں تو وہ ایک حقیقت سے دوسری حقیقت میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح پانی کے اجزاء جب بہت چھوٹے ہو جائیں تو وہ ہوا میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ پس جب وہ موجود ہوتے ہیں تو لفظ ’’ماء ‘‘کا مسمیٰ ہوتے ہیں ۔ پس ان میں کوئی بھی ایسی چیزنہیں پائی جاتی جس کا بعض بعض سے جدا نہ ہو سکے۔ جس طرح جوہر فرد کے مثبتین کہتے ہیں : اور اس کا غیر متناہی حد تک انقسام ممکن بھی نہیں ؛ بلکہ جب وہ بہت زیادہ چھوٹا ہو جاتا ہے تووہ خارجی تقسیم کو قبول نہیں کرتا ؛اگرچہ اس کا بعض دوسرے بعض کاغیر ہو۔بلکہ جب اس میں تقسیم یا اس جیسا کوئی اور تصرف کیا جائے تو اس کا استحالہ ہو جاتا ہے؛ اور حقیقت بدل جاتی ہے۔ پس چھوٹے اجزاء اگرچہ ان کا صغر(چھوٹا ہونا)کتنا ہی زیادہ ہو؛ تو ان میں تمیز اور تفریق کا امکان حس اور عقل دونوں سے ثابت ہے۔ لیکن اس کے اجزاء کا ایک دو سرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ پھر خراب ہو جاتا ہے اور اس کے قوام میں ضعف کی وجہ سے استحالہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اتنے چھوٹے جسم کے ساتھ اس کا احتمال نہیں رکھتا؛یہ مقام اس مسئلہ کی تفصیل کا نہیں ۔ پھر اجسام کے جواہرِ مفردہ سے مرکب ہونے کے قائلین کا آپس میں اختلاف ہے ؛کہ کیا وہ جوہر اس کے مثل کا اس کے ساتھ انضمام کے ساتھ مشروط ہے؛ یا وہ دو جوہر ہیں یا دو سے زیادہ یا چار یا چھ یا آٹھ یا سولہ اور یا بتیس ؟اِن کے یہ سب معروف اقوال ہیں ۔ پس لفظِ’’ جسم ،جوہر اور متحیز‘‘ کے الفاظ میں مختلف آراء ہیں ۔لہٰذا اسی وجہ سے ان الفاظ اور اصطلاحات اللہ تعالیٰ پرکا اطلاق نفی و اثبات کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔ بلکہ جب کوئی یہ کہے کہ: باری تعالیٰ جسم ہے۔ تو اس سے پوچاجائے گا کہ: کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ اجزاء سے مرکب ہے؛اس کی طرح جو پہلے وہ اجزاء متفرق تھے پھر ان کو آپس میں ملا دیا گیا ؟یا وہ تفریق کو قبول کرتا ہے ؟خواہ یہ کہا جائے کہ وہ بنفسہ جمع ہوئے ہیں ؛ یا غیر نے ان کو جمع کیا ہے ۔یا وہ مخلوقات میں سے کسی چیز کی جنس میں سے ہے ؟یا یہ کہ وہ مادہ اور صورت سے مرکب ہے ؟یا وہ جواہر فردہ سے؟ اگر وہ یہ کہے کہ : وہ [اس معنی میں ]مرکب ہے۔‘‘ تو جواب میں کہا جائے گا:یہ عقیدہ باطل ہے۔ اور اگر وہ کہے کہ : میری مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودیا قائم بنفسہ ہے۔ جس طرح کہ ہشام اور محمد بن کرام