کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 534
﴿وَنَبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَائَ قِسْمَۃٌ بَیْنَہُمْ کُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ ﴾(قمر28) ’’اور انھیں بتا دے کہ بیشک پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گا، پینے کی ہر باری پر حاضر ہوا جائے گا۔‘‘ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى ﴾(النساء: ۸) ’’اور جب تقسیم کے وقت قرابت والے حاضر ہوں ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( واللہ انی ما أعطی أحدا ولا أمنع أحداًوانما أنا قاسم أقسم بینکم۔))[1] ’’اللہ کی قسم !میں جو ہے میں کسی کو بھی اپنی طرف سے نہیں دیتا اور نہ کسی کو اپنی طرف سے روکتا ہوں یعنی اس سے اس کا حق روکتا ہوں میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں جو تمہارے درمیان بانٹتا ہوں ۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ : (( لا تعضیۃ فی المیراث الاما حمل القسم۔))[2] ’’ میراث میں کسی کو کچھ نہ دیا جائے ؛ سوائے اس کے جو اس کی تقسیم میں آئے۔‘‘ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کی جو حدیبیہ میں حاضر تھے۔ اور حنین کے غنائم کو مقام جعرانہ میں تقسیم کیا جس وقت طائف سے لوٹ رہے تھے ۔ اورحضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی میراث تقسیم فرمائی۔ اور فقہاء کاتقسیم پر ابواب قائم کرنا مثلاً: ’’باب قسمۃ الغنائم والفیء والصدقات وقسمۃ المیراث وباب القسمۃ وذکر المشاع والمقسوم وقسمۃ الاجباروالتراضی‘‘ کسی حساب کرنے والے کا یہ کہنا کہ:’’ ضرب اورتقسیم سے مراد خارج میں موجود اعیان کی تقسیم ہوتی ہے ۔ پس دو شریکوں میں سے ایک حصہ لے لیتا ہے اور دوسرا دوسرا حصہ۔ تو مقسوم کے ناموں میں سے ہر ہر قسم کے بارے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ ان میں سے ہر ایک پر منفرداً بھی صادق آئے۔ پس ان کے درمیان ایک اونٹ کو تقسیم کر دیا جائے تو کوئی ایک اس کی ران لے لیتا ہے اور دوسرا سر لے لیتا ہے اور تیسراکمر ۔ تو اب اونٹ کا لفظ ان ابعاض پر اکیلے صادق نہیں آتا۔ایسا ہی ان کے درمیان درخت کو تقسیم کر دیا جائے تو آدھا تنا ایک لے لیتا
[1] فِی البخارِیِ:4؍85؛ ِکتاب فرضِ الخمسِ، باب فإِن لِلہِ خمسہ ولِلرسولِ؛ وانظر :فتح الباری 6؍152 ؛ المسند ط. المعارِف12؍180 ؛ رقم: 7193 م . وانظر در تعارضِ العقلِ والنقلِ 8؍278.۔ [2] سنن الکبری للبیہقي ۱۰؍۱۳۳] ہذا الحدیث ضعیف لانقطاعہ۔ الجامع الکبیر للسیوطی ۱؍۸۹۶۔ النہایۃ في غریب الحدیث و الأثر ۳؍ ۱۰۶۔