کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 533
اوقات مادہ سے مادہ ازلیہ مراد لیا جاتا ہے ؛ جو صورت سے مجرد ہوتا ہے۔ اور افلاطون اس کا قائل ہے؛ جبکہ باقی تمام عقلاء نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور حقیقت میں وہ ذہن میں تو ثابت ہیں خارج میں نہیں ۔ اور تمام اجسام جوایک قدر میں مشترک ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی ایک خاص مقدار ہوتی ہے؛ جو اس کی ذات کے ساتھ خاص ہے ۔ پس وہ نوعِ مقدار میں تو مشترک ہیں عینِ مقدار میں نہیں لہٰذااجسا م مقدار میں مشترک ٹھہرے ۔ پھروہ کہتے ہیں :ان کے درمیان مادہ اور ھیولیٰ مشترک ہے ۔اور وہ کلی مطلق اور معین چیز کے درمیان اشتراک میں فرق کی طرف صحیح راہ نہیں پا سکے (یعنی درست موقف اختیار نہیں کیا )۔پس جسمیت ،امتداد اور مقدار میں اجسام کا اشتراک جس کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ مادہ ہے۔ یا اس کے مثل جیسے کہ لوگوں کا انسانیت میں اشتراک اور حیوانات کا حیوانیت میں اشتراک۔ اور ن کا خیال ہے کہ یہ کلیات خارج میں موجود اور مشترک ہیں ۔ حالانکہ یہ غلطی ہے۔ اس لیے کہ خارج میں جو کچھ ہے؛ اس میں کوئی اشتراک نہیں ۔بلکہ ہر موجود چیز کا وجود اس کے ساتھ خاص ہے۔ اس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہوتا۔ اور اشتراک تو ان امور عامہ کلیہ مطلقہ میں واقعہ ہوتا ہے۔ اور امور کلیہ مطلقہ تو صرف ذہن میں پائے جاتے ہیں ؛ اعیان میں نہیں ہوتے۔ پس جس چیز میں اشتراک پایا جاتا ہے اس میں صرف علم اور عقل ہوتے ہیں ۔اور جس چیز کے ذریعے اختصاص اور امتیاز حاصل ہوتا ہے؛ ۔وہ خارج میں موجودہے۔ اس میں تو کوئی اشتراک نہیں ۔بیشک اس میں تو اشتباہ اور تماثل پایا جاتا ہے جسے اشتراک کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسے ایک عام معنی کے اندر اشتراک۔ اور اشتراک کے اعتبار سے انقسام ۔پس جوکوئی جزئیات کی کلی اور جزی کی تقسیم میں فرق نہیں کرتا؛جیسے کہ کلمہ کا اسم ،فعل حرف میں تقسیم ہونا ؛تو وہ غلطی کا شکار ہے۔ جیسے اور بھی بہت سے لوگ اس مقام میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جب نحویوں میں سے ایک گروہ جیسے کہ زجاج اور ابن جنی؛وغیرہ نے کہا کہ: کلام کواسم ،فعل اور حرف کی طرح تقسیم کیا ہے۔ یا کلام سارے کا سارا تین قسم پر ہے :اسم ،فعل اور حرف۔ تو اِس پر اُس شخص نے اعتراض کردیا جو ان کے مقصود کوجان سکا۔اور اس نے قسمت کو دو اقسام میں تقسیم نہیں کیا؛ جیسے کہ جزولی رحمہ اللہ ۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’:ہر جنس انواع اور اجسام میں تقسیم ہوتی ہے۔ یا ایسی نوع میں جسے اشخاص میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پس مقسوم کا لفظ’’اسم ‘‘ ان انواع اور اشیاء سب پر صادق آتاہے۔ ورنہ تو اقسام ہی حاصل نہ ہوتیں ۔ تفسیر ابن جنی میں ابو البقاکا کلام اس کے زیادہ قریب ہے۔چنانچہ وہ کہتا ہے کہ: اس کا معنی یہ ہے کہ :’’ کلام کے اجزاء یا اس کے مثل۔‘‘ یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ خارج میں کسی بھی موجود چیز کا اپنے ابعاض اور اجزاء میں تقسیم ہونا ،کسی عام معنی کا ذہن میں انواع اور اشخاص کی طرف تقسیم سے زیادہ مشہور ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: