کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 531
بسا اوقات یہ جسم کو مرکب سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا معنی ان کے نزدیک لغوی معنی سے زیادہ عام ہے اس لیے کہ جو لغت میں مرکب کہلاتا ہے تو وہ وہ ہوتا ہے جس کو کسی ترکیب دینے والے نے مرکب کیا ہو یا کسی مولف نے اس کی تالیف کی ہو ۔جیسے کہ وہ دوائیں جو معجون اور اشربہ سے مرکب ہوتی ہیں ۔ا ور مرکب سے وہ بھی مراد لیا جاتا ہے جس کو کسی غیر کے اوپر چڑھایاگیا ہو؛ یااس کے اندر اس کو ملا یا گیا ہو جیسے کہ دروازہ جو دیوار میں اپنی جگہ پرلگا دیا جاتا ہے تو اس کو بھی مرکب کہتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿فِیْ اَیِّ صُورَۃٍ مَا شَائَ رَکَّبَکَ ﴾(انفطار: ۸ )
’’جس صورت میں بھی اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔‘‘
یہ اہل لغت لفظِ’’ تالیف ‘‘سے دلوں کے درمیان موافقت مراد لیتے ہیں اور اس کے امثال ۔اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :﴿ والمؤلفۃ قلوبہم﴾( توبہ: ۷ )
’’اورتألیف ؍میلان قلبی رکھنے والے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَـکِنَّ اللّہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾(انفال :۶۳)
’’اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، اگرآپ زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے؛ اور لیکن اللہ نے ان کے مابین الفت ڈال دی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً ﴾(آل عمران: ۱۰۳)
’’جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘
لفظ ’’مؤلف ‘‘اور لفظ’’ مرکب‘‘ میں لوگوں کے کئی اصطلاحات ہیں یعنی کئی معانی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جیسے کہ نحویوں کی خاص اصطلاح ہے۔ بسا اوقات وہ مرکب سے ’’جملۂ تامہ ‘‘مراد لیتے ہیں اور بسا اوقات اس سے ایسا لفظ مراد لیتے ہیں کہ جو ترکیب مزج (مرکب بنائی) ساتھ مرکب ہو؛ جیسے بعلبک۔ اور بسا اوقات اس سے مراد ’’مضاف ‘‘اور ’’شبہ مضاف ‘‘مراد لیتے ہیں ،یعنی جس کو منادی ہونے کی حالت میں منصوب ہوتا ہے ۔
اہل منطق اور ان کے ہمنوا اہل کلام کے ہاں کچھ اوراصطلاحات ہیں ۔ جس میں وہ مرکب سے مراد ایسی