کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 53
براہین [دلائل ] کا نام ہی کیوں نہ دیتے ہیں ۔ کبھی تو شیعہ حضرات معتزلہ اور قدریہ [1]کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں ‘ اور کبھی مجسمہ[2]اور جبریہ [3] کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔ یہ لوگ نظری علوم میں سب فرقوں سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عام اہل علم اور دین دار طبقہ کے لوگ انہیں اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں میں سب سے جاہل گروہ کہتے چلے آئے ہیں ۔ ان میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کی وجہ سے دین اسلام کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا بخوبی اندازہ صرف رب العالمین ہی کو ہے۔ ملحدین اسماعیلیہ[4]باطنیہ اور نصیر یہ[5] جیسے گمراہ فرقے اسلام میں شیعہ ہی کے دروازے سے داخل
[1] قدریہ وہ فرقہ ہیں جو قدر کے مسائل میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں او رتقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔راجح قول کے مطابق اس فرقے کا پہلا انسان معبد الجہنی تھا جو ۸۰ؔہجری میں قتل ہوا۔[شرح مسلم از امام نووی ۱؍۱۵۰] پھر اس کے بعد ابن غیلان بن مسلم الدمشقی اس راہ پر چل پڑا؛ جسے عبد الملک بن مروان کے عہد میں قتل کیا گیا۔[الفرق بین الفرق ص۷۰] امام ابو الحسن اشعری نے مقالات میں اصول دین میں رافضیوں کا اختلاف ذکر کیا ہے ؛ اوریہ واضح کیا ہے کہ ان میں سے بعض قدریہ اور معتزلہ کی اتباع کرتے ہیں ۔ [مقالات ۱؍۱۰۵] [2] مجسمہ کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اجسام میں سے ایک جسم ہیں ۔ اشعری نے مقالات میں ان کا ذکر کیا ہے[۱؍۱۰۲] اور پھر عصر کے پانچ شیعہ فرقوں کی آراء نقل کی ہیں ؛ یہ سارے فرقے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم مانتے ہیں ۔ جیسا کہ ہشام بن الحکم کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہے؛اورچوڑائی او رگہرائی بھی یکساں ہیں (معاذ اللہ )۔پھر اشعری نے مقالات [۱؍۱۰۵]میں نقل کیا ہے کہ:یہ لوگ توحید میں معتزلہ اور خوارج والا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ جب کہ ان کے اولین لوگوں کا وہی تشبیہ والا عقیدہ تھا جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے۔ [3] جبریہ وہ فرقہ ہیں جو انسان کے لیے کسی کام کو ثابت نہیں مانتے؛ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کو اصل میں کوئی قدرت یا اختیار حاصل نہیں ۔ وہ تمام تر افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ہمارے علم کی حد تک جبریہ کی طرح جداگانہ عقیدہ رکھنے وا لا کوئی فرقہ نہیں پایا جاتا۔ اور دیگر امور میں یہ لوگ جہمیہ نجاریہ اور ضراریہ کی طرح کے عقائد رکھتے ہیں جن کا عقیدہ جبر اورنفی صفات الٰہی کا جامع تھا۔ [الملل والنحل ۱؍۷۹۔] [4] ۱۴۷ھ میں امام جعفر الصادق رحمہ اللہ کی وفات کے بعد شیعہ امامیہ کئی فرقوں میں بٹ گئے؛ ان میں سے دو فرقے بہت اہم تھے ؛ اسماعیلیہ اور موسویہ ۔ موسویہ کا عقیدہ تھا کہ امامت موسی کاظم بن جعفر الصادق کا حق ہے۔ جب کہ اسماعیلیہ کہتے تھے کہ : امامت اسماعیل بن جعفر کا حق ہے۔ پھر اسماعیلیہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے پہلا فرقہ کہتاتھا کہ: امام اسماعیل مرے نہیں ؛ بلکہ انہوں نے تقیہ کرتے ہوئے موت ظاہری کی ہے؛ امام اشعری کے نزدیک یہ لوگ قرامطہ ہیں ۔ دوسرے فرقہ کا عقیدہ تھا کہ امام اسماعیل مر گیا ہے؛ اور اس کے بعد امام محمد بن اسماعیل ہے۔ اس فرقے کو بعد میں مبارکیہ شیعہ کہا جانے لگا۔ پھر اس کے بعد ان کے بھی دو گروہ ہوگئے: پہلا گروہ : جو امامت کو محمد بن اسماعیل پر موقوف سمجھتے ہیں ؛ ان کا عقیدہ ہے کہ امام محمد بن اسماعیل چھپ گیا؛ وہ دوبارہ لوٹ کر آئے گا اور کہنے لگے:اب امامت امام مستور میں ہوگی۔اور ان میں سے کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ ان میں سے بھی دو امام ظاہر ہوں گے۔ انہیں اسماعیلیہ باطنیہ کہا جانے لگا۔ [مقالات ۱؍۹۸۔۱۰۱؛ الملل والنحل ۱؍۱۴۹۔طائفہ اسماعیلیہ از ڈاکٹر کامل حسین طبع قاہرہ؛ ۱۹۵۹۔ محمد بن الحسن الدیلمی ’’کتاب قواعدو عقائد آل محمد الباطنیہ ؛دائرہ المعارف الاسلامیہ] [5] یہ غالی شیعہ کا ایک گروہ ہے۔ جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فرقہ کے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الہ برحق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔علامہ شہرستانی [الملل و النحل ۱؍۱۶۸۔۱۶۹] پر (